بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریداری پر بذریعہ قرعہ اندازی انعام دینے کا حکم


سوال

ہم کلر کاسمیٹکس کا کام کرتے ہیں ،اس میں میک اپ کا سامان ہوتا ہے،ہم دکاندار حضرات پر اپنا سامان فروخت کرنے کے لئے قرعہ اندازی اور کوپن کا طریقہ کار شروع کرنا چاہتے ہیں ،تا کہ ہمارا مال زیادہ سے زیادہ فروخت ہو سکے،طریقہ کار کچھ اس طرح ہو گا کہ مثلا جو دکاندار ہم سے پچاس ہزار کا مال خریدے گا تو اسے ایک کوپن بھی دیا جائے گا ،اور وہ اس کوپن کے ذریعے ہماری کمپنی کی قرعہ اندازی میں شریک ہو سکے گا،اور قرعہ اندازی میں مختلف انعامات نکلیں گے،اس طرح کی اسکیم مختلف کمپنیاں چلاتی رہتی ہیں،جن میں سے ایک کمپنی کا کارڈ بطورِ نمونہ سوال نامہ کے ساتھ لف کر رہا ہوں تا کہ میری بات مکمل واضح ہو سکے، برائے کرم مجھے اس طرح سے اسکیم کے ذریعے اپنے کاروبار کرنے کے بارے میں شرعی راہنمائی فرما دیں!

جواب

کسی بھی کمپنی کا  اپنی مصنوعات کی فروخت بڑھانے  کے لیے ذکر کردہ انعامی سلسلہ شروع کرنا درج ذیل شرائط کے ساتھ مشروط ہے:

(۱) کمپنی   سامان کی قیمت اتنی ہی مقرر کرے جو کہ مارکیٹ میں ایسے سامان کی رائج ہو،یعنی  اس سامان کی عام قیمت میں قرعہ اندازی  میں شریک کرنے کے لئے  اضافہ نہ کیا ہو،ورنہ یہ معاملہ جوئے (قمار) کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

(۲) کمپنی اپنی مصنوعات  کا معیار بھی کم نہ کرے،تا کہ انعامی اسکیم کےنام پر کم معیار کی اشیاء سے خریدار کو دھوکہ اور نقصان نہ ہو۔

(۳)كمپني اس انعامی اسکیم کو اپنی ناقص مصنوعات کے نکالنے کا ذریعہ نہ بنائے، یعنی انعام  کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنی ناقص مصنوعات خریدنے کی طرف راغب نہ کرے۔

چنانچہ اگر مذکورہ شرائط کی مکمل رعایت رکھی جائے تو  کمپنی  کا قرعہ اندازی کے ذریعہ گاہک(دکان دار وغیرہ ) کو انعام دینا  کمپنی  کی طرف سے تبرع اور احسان شمار ہوگا اور گاہک (کسٹمر) کے لیے اس انعام کا لینا جائز ہوگا، لیکن اگر مذکورہ شرائط  میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو گي  تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

 قرآن کریم میں باری تعالٰی کا ارشاد  ہے:

"يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا".[البقرة:۲۱۹ ]

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار. قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال والزوجة".

(سورۃ البقرۃ، آیۃ:۲۱۹ ، باب تحریم المیسر، ج:۲ ؍۱۱ ،ط:دار احیاء التراث العربی۔بیروت)

قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ." [المائدة: ۹۰ ]

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار ... ولأن معنى إيسار الجزور أن يقول من خرج سهمه استحق من الجزور كذا فكان استحقاقه لذلك السهم منه معلقاً على الحظر."

(سورۃ المائدۃ، آیۃ:۹۰ ، باب تحریم الخمر، ج:۴ ؍۱۲۷ ،ط:دار احیاء التراث العربی۔بیروت)

    مصنف ابن ابی شیبہ  ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر." 

(کتاب البیوع و الأقضیة، البیض الذي یقامر فیه، ج4/ 483 ،مکتبة الرشد الریاض)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، ج:۶ ؍۴۰۳ ،ط:سعید )

مبسوط السرخسی میں ہے:

" لا بأس باستعمال ‌القرعة في القسمة فقد «استعمل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ذلك في قسمة الغنيمة مع نهيه صلوات الله عليه عن القمار» فدل أن استعماله ليس من القمار."

(کتاب القسمۃ،ج:4،ص:15،ط:دار المعرفۃ)

وفیہ ایضا:

" فاستعمال القرعة في مثل هذا الموضع جائز عند العلماء أجمع - رحمهم الله،وبهذا الحديث قلنا: إذا تزوج أربع نسوة فله أن يقرع بينهن لإبدائه بالقسم؛ لأن له أن يبدأ بمن شاء منهن فيقرع بينهن تطييبا لقلوبهن ونفيا لتهمة الميل عن نفسه وإنما أورد الحديث للحكم المذكور بعده أنه لا بأس للقسام أن يستعجل القرعة في القسمة بين الشركاء قاسم القاضي وغيره في ذلك سواء وهو استحسان وفي القياس هذا لا يستقيم؛ لأنه في معنى القمار؛ فإنه تعليق الاستحقاق بخروج القرعة والقمار حرام؛ ولهذا لم يجوز علماؤنا استعمال القرعة في دعوى النسب ودعوى الملك وتعيين العتق، ثم هذا في معنى الاستقسام بالأزلام الذي كان بعبادة أهل الجاهلية وقد حرم الله تعالى ذلك ونص على ذلك أنه رجس وفسق ولكنا تركنا بالسنة والتعامل الظاهر فيه من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من غير نكير منكر، ثم هذا ليس في معنى القمار ففي القمار أصل الاستحقاق يتعلق بما يستعمل فيه وفي هذاالموضع أصل الاستحقاق بكل واحد منهم لا يتعلق بخروج القرعة، ثم القاسم لو قال: عدلت أنا في القسمة فخذ أنت هذا الجانب وأنت هذا الجانب كان مستقيما إلا أنه ربما يتهم في ذلك فيستعمل القرعة لتطبيب قلوب الشركاء ونفي تهمة الميل عن نفسه، وذلك جائز."

(کتاب القسمۃ،ج:7،ص:15،ط:دار المعرفۃ)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"ذكر في «الأجناس» : ‌القرعة ثلاث: الأولى لإثبات حق وإبطال حق آخر وإنها باطلة، كمن أعتق أحد عبديه بغير عينه، ثم تعين بالقرعة، والأخرى لطيبة النفس، وإنها جائزة كما يقرع بين النساء ليسافر بها، والثالث لإثبات حق واحد وفي مقابلة مسألة ليقر بها كل حق كالقسمة وهو جائز والله أعلم۔"

(کتاب القسمۃ،الفصل السادس،ج:7،ص:356،ط:دارالکتب العلمیہ)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" لقوله - عليه الصلاة والسلام -: «المباح لمن سبق إليه» وإن اشتبه عليه حالهم؛ استعمل ‌القرعة، فقدم من خرجت قرعته."

(فصل فی بیان آداب القضاء،ج:7،ص:13،ط:دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں