بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

"سیل" کا اشتہار لگا کر سابقہ قیمت پر اشیاء فروخت کرنا


سوال

بندے کا کارپٹ کا کاروبار ہے،بندہ مارکیٹ سے مثال کے طور پر ایک کارپٹ 30 ریال کا خرید تا ہے،اور اس کو  دکان میں 50 ریال میں بیچ دیتا ہے،  اب بندے نے دکان کو ختم کرنا ہے،تو سیل (تنزیلات ) لگایا ہے،اور اسی ریٹ پر مال بیچ رہا ہوں،جس ریٹ پر پہلے بیچتا تھا،یعنی اسی پچاس ریال پر اور سیل (تنزیلات) صرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیےلگایا ہے،شریعت کی رو سے یہ کیسا ہے؟

جواب

  "سیل بورڈ "لگاکر پھر  اسی قیمت پر بیچنا جھوٹ ہے اس سے گریز لازم ہے کیوں کہ" سیل "کا  مطلب  یہ سمجھا جاتا ہےپہلی والی  قیمت سے کچھ رعایت کے ساتھ فروخت کیا جارہا ہے۔

فتح القدیر  میں ہے:

" والحد المذكور: أعني مبادلة المال بالمال علي وجه التّراضي بطريق الاكتساب إنما هو حد البيع الّذي هو عقد شرعي وهو المجموع المركب من الإيجاب والقبول مع الارتباط الشرعي الحاصل بينهما."

( كتاب الوكالة، باب الوكالة في البيع و الشراء، فصل في البيع، ج: 8 ص: 80 ط: دار الفكر)

ہدایہ میں ہے:

"ویجوز للبائع أن یزید للمشتري في المبیع، ویجوز أن یحط عن الثمن... الخ "

(کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، ج: 3 ص: 59 ط: دار احياء التراث العربي)

مسند الإمام أحمد بن حنبل میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 

(تتمة مسند الأنصار، حديث أبي أمامة الباهلي الصدي بن عجلان بن...، ج: 36 ص: 504 ط: مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101286

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں