بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خرید و فروخت کی ایک قسم


سوال

ایک بندے نے پیسے دیے کہ میرے لیے مال لے لو، وہ مال میں نے لیا اور اُس بند نے مجھ پر وہی مال 100 روپے نفع پر فروخت کردیا ، کیا یہ بیع ٹھیک ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے مذکورہ مال لے کر اُس بندے کے حوالے کردیا تھا جس نے آپ کو مال لینے کا کہا تھا، یا اس کے کسی متبادل یا قائم مقام شخص کے حوالے کردیا تھا جس سے خریدار کا قبضہ پایا گیا تھا، پھر اس کے بعد از سر نو نیا  معاملہ اس طور پر کیا جارہا ہے  کہ اس معاملے کا  نہ پہلے سے کچھ طے تھا ، نہ ہی اس طرح کے  معاملے کی کوئی شرط پہلے سے رکھی گئی تھی اور نہ ہی اس طرح کے معاملے کا کوئی عرف ہے تو ان شرائط کے ساتھ مذکورہ معاملہ  درست ہوگا ، لیکن اگر پہلے ہی سے اس طرح کے معاملہ  طے ہوگیا تھا کہ پہلے آپ میرے لیے اس شرط پر خریدیں کہ میں اس کو آپ پر بیچ دوں گا یا مؤکل یا اس کے متبادل یا قائم مقام کا حقیقی قبضہ ہی نہیں پایا گیا تو ایسی صورت میں یہ بیع جائز نہیں ہوگی ،کیوں کہ اس طرح کرنے سے کئی خرابیاں لازم آتی ہیں ، مثلاً ایک ہی شخص کا معاملہ کے دونوں اطراف کا متولی ہوجانا، یا بیع میں کسی قسم کی کوئی شرط رکھ دینا جو کہ بیع کو فاسد کردیتی ہے، اسی طرح بیع قبل القبض کا پایا جانا ۔

موسوعة القواعد الفقهيةمیں ہے : 

"القاعدة السابعة والعشرون: [العاقد من الجانبين]أولا: ألفاظ ورود القاعدة: الواحد لا يتولى طرفي العقد - أو - لا يتولى العقد من الجانبين . وفي لفظ: الواحد في المعاوضات المالية لا يصلح عاقدا من الجانبين."

( حرف الواو، القاعدة السابعة والعشرون: [ العاقد من الجانبين] ، (12 / 152) ط: مؤسسة الرسالة ، بيروت لبنان)

مجمع بحار الأنوارمیں ہے : 

"لا يجوزشرطان في بيع، هو كقولك: بعتك هذا نقدا بدينار ونسيئة بدينارين، وهو كالبيعين في بيع، ولا فرق عند الأكثر في البيع بشرط أو شرطين، وفرق أحمد لظاهر هذا الحديث. ومنه ح: نهى عن بيع و"شرط" وهو أن يكون الشرط ملازما في العقد لا قبله ولا بعده."

( حرف الشين ، (3/ 200 ) ط: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408101658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں