بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدے ہوئے مال کو واپس کرنے پر پہلی قیمت میں کٹوتی کی جاتی ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟


سوال

ایک شخص نے دوکان سے موبائل خریدا اور گھر لے آیا اور گھر لانے کے بعد گھر والوں نے اس کو مجبور کیا کہ وہ موبائل واپس کر دے دکاندار موبائل واپس لینے کے لیے راضی ہے لیکن پانچ سو روپے کی کٹوتی کر رہا ہے شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائے؟

جواب

واضح رہے جب دوشخصوں کے درمیان کسی چیزکی بیع کامعاملہ مکمل ہوجائے اورپھرمشتری یابائع میں سے کسی کوکوئی پچھتاواہوجائے اورکسی مصلحت سے معاملہ فسخ کرناچاہے اوردونوں فریق اس پررضامندہوں توشریعت کی اصطلاح میں اسے اقالہ کہتے ہیں اورحدیث شریف میں اقالہ کرنے والے کے بارے میں خوش خبری آئی ہے ۔

لہذاصورت مسئولہ میں اگرمذکورہ شخص موبائل کوواپس کرناچاہےتو دونوں فریق اقالہ کرتے ہوئے اس معاملہ کوختم کردے توبائع پراس چیزکی قیمت واپس کرنا لازم ہوجاتی ہے ۔اورقیمت کی واپسی میں کٹوتی کرناجائز نہیں ہے۔البتہ اگر اس چیز میں کوئی عیب پیدا ہو گیا ہو، تو اس عیب سے پیدا شدہ نقصان کو پورا کرنے کےلیے، قیمت میں سے کٹوتی کی جا سکتی ہے۔

لیکن اگر دکاندار موبائل  کو پہلی قیمت میں واپس لینے پر راضی نہ ہو، تو اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا، البتہ اگر دکاندار پہلی قیمت میں کٹوتی کرنا ہی چاہتا ہے، تو دونوں فریقین کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو "اقالہ" کا عنوان نہ دیں، بلکہ دکاندار خریدار سے کہے کہ پہلے والا معاملہ ختم ہوگیا ہے، اب یہ ایک نیا معاملہ ہے، اس میں مَیں آپ سے یہ موبائل اتنی قیمت پر خریدوں گا، سابقہ قیمت میں سے کٹوتی کا اس معاملے میں ہرگز ذکر نہ کیا جائے، تو ایسی صورت میں یہ ایک نیا معاملہ ہوگا، دونوں فریقین بھاؤ تاؤ کے بعد جس قیمت پر راضی ہو جائیں، اسی پر معاملے کو پکا کر دیا جائے، تو ایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"

(سنن ابن ماجہ باب الاقالۃ  ۷۴۱ /۲ ط:داراحياء الكتب العربيۃ)

ترجمہ :حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کسی مسلمان سے اقالہ کرلے (یعنی بیچی ہوئی چیز واپس لے لے) اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی لغزشوں سے درگزر فرمائیں گے۔

 اورشرح المجلہ میں ہے :

"قال العلامۃ سلیم رستم بازرحمہ اللّٰہ:الثالث انھالاتفسدالشرط الفاسد وان لم تصح تعلیقھا بہٖ بل یکون الشرط لغوًافلو تقایلاعلٰی ان یوخرالمشتری الثمن سنۃ اوعلٰی ان یحط منہ خمسین صحت الاقالۃ لاالتاخیر والحط."

(شرحالمجلۃ لسلیم رستم باز،ص؍۹۱،المادۃ۔۱۹۰،الفصل الخامس فی الاقالۃ. ط: دارالاشاعۃا لعربیۃ(

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"قال  رحمه الله  (وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأكثر أو الأقل بلا تعيب وجنس آخر لغو ولزمه الثمن الأول) وهذا عند أبي حنيفة؛ لأنه لما كانت الإقالة عنده فسخا والفسخ يرد على غير ما يرد عليه العقد كان اشتراط خلاف الثمن الأول باطلا وشرط لعدم جواز اشتراط الأقل عدم التعيب عند المشتري، وأما إذا تعيب عنده فيجوز بالأقل فيجعل الحط بإزاء ما فات بالعيب، ولهذا يشترط أن يكون النقصان بقدر حصة ما فات بالعيب ولا يجوز أن ينقص أكثر منه."

(تبيين الحقائق ،كتاب البيوع ، باب الاقالة4 / 71 ط:المطبعة الكبرى الأميرية )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وأما ‌حكمه ‌فثبوت ‌الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا."

(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب البیوع ، الباب الأول في تعريف البيع .... 3/ 3 ط: رشیدیۃ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401102049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں