دکان داری میں عورتوں پر چیزیں بیچتے وقت ان کے ساتھ بات چیت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
شرعی اعتبار سے عورت کےذمہ گھرکےامورکی انجام دہی ہے، باہر کے کام عورت کے نہیں مرد کے ذمہ لازم ہیں؛ اس لیے جب گھر میں مرد بھی موجودہیں تو آج کل کے ماحول میں عورت کا بازار جانادرست نہیں ہے۔ نیزعورت کے لیے بلاضرورتِ شرعیہ نامحرم مرد سے بات چیت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
البتہ عورت کے لیے مجبوری کے وقت ضرورت کے مطابق گھر سے باہر نکلنا جائز ہے، اس لیے اگر واقعی مجبوری ہے تو عورت شرعی پردہ کے ساتھ بازار سے سامان خرید کر لا سکتی ہے، اس صورت میں عورت کے لیے بھی یہ حکم ہے بات مختصر کرے ،بے تکلف اور بے محابہ گفتگو کی ہرگز اجازت نہیں، جہاں تک ممکن ہو آواز پست رکھیں اور لہجہ میں کشش پیدا نہ ہونے دے۔ اسی طرح مرد کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ عورت سے مختصر بات کرے ، بات چیت کو طول نہ دے، ضرورت کے بقدر مقصد کی بات کرکے سودا سلف فروخت کرسکتا ہے۔
الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (6 / 369):
" وفي الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: ولايكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لايرد السلام عليها وإلا لا، انتهى. وبه بان أن لفظة "لا" في نقل القهستاني ويكلمها بما لايحتاج إليه زائدة، فتنبه". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109200546
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن