بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1445ھ 20 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خرید و فروخت میں کمیشن ایجنٹ کا نقصان کی ذمہ داری لینے کا حکم


سوال

میں نے ایک گاڑی خریدی ،جس وقت گاڑی کی خریداری ہورہی تھی، تو ایک آدمی (ایجنٹ) نے مجھ (خریدار) سے کمیشن لیا،اور وہ ضامن ہوا گاڑی کے کاغذات وغیرہ تمام چیز وں کا،پھر بیچنے والا غائب ہوگیا،اور گاڑی پر کسی اور نے دعوی کردیا،تو دعوے داروں کے ساتھ جو صلح ہوئی،وہ اس ضامن کی موجودگی اور اس کے مشورے سے ہوئی،لیکن مجھے اس معاملے میں آٹھ لاکھ اسی ہزار(880000) روپے کا نقصان ہوا،وہ اس طرح کہ میں نے گاڑی  کی قیمت  میں سے   پچیس لاکھ اسی ہزار روپے (2580000) ادا کیے تھے،جب کہ مجھے دعویداروں سے سترہ لاکھ (1700000) روپے  موصول ہوئے، اس طرح مجھے آٹھ لاکھ اسی ہزار(880000) روپے کا نقصان ہوا،چناں چہ اس نقصان  کا ضامن  کمیشن  لینے والا ایجنٹ  بن گیا۔

تو اب کیا  میں اس کمیشن لینے والے سے یہ رقم لےسکتا ہوں؟ اور جب کہ یہ گاڑی میں نے سات لاکھ (700000) منافع پر فروخت کی تھی تو میرا وہ منافع بھی ختم ہوگیا!

جواب

صورتِ مسئولہ میں  گاڑی کی  خریداری  کے وقت اگر  ایجنٹ نےگاڑی کے  کاغذات وغیرہ ہر چیز کی ذمہ داری لی تھی اور سائل نے اس کے ضمانت کے سبب یہ گاڑی خریدی تھی ،پھر بعد میں کوئی شخص اس گاڑی کا مستحق نکل آیا ،پھر  سائل نے  کمیشن ایجنٹ کے مشورے سے اس شخص کے ساتھ صلح کی اور اس کے بعد سائل کو جو نقصان ہو ا، تو کمیشن ایجنٹ اس نقصان  کا ضامن بن گیا ،لہذا کمیشن ایجنٹ سے سائل کا اپنے نقصان کے بقدر رقم وصول کرنا جائز ہے۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وهذا ‌بخلاف ‌الكفالة ‌بالدرك، فإنه يصح؛ لأن الكفالة تقبل الإضافة، ولهذا لو كفل بما ذاب له على فلان، فكذا إذا كفل بالدرك فإنه يصح؛ لأنه يكون العقد مضافا."

(كتاب الرهن،73/21،دار المعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو كفل عن رجل بما لفلان عليه أو بما يدركه في هذا البيع جاز لأن جهالة قدر المكفول به لا تمنع صحة الكفالة."

(كتاب الكفالة،فصل في شرائط الكفالة،9/6،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو أخذ المشتري رهنا بالدرك لا يصح ‌بخلاف ‌الكفالة ‌بالدرك."

(كتاب الكفالة،فصل في شرائط الكفالة،9/6،ط:سعيد)

فقط والله اعلم



فتوی نمبر : 144409100732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں