بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت کے بارے میں حدیث کا حوالہ


سوال

1۔کھڑے ہوکر پانی پینا کیسا ہے؟ کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کا  حوالہ دیتے ہیں جو کہ بخاری میں موجود ہے، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پیا، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

2۔اگر کھڑے ہوکر پانی پینا سنت کے خلاف ہے تو کسی حدیث کا حوالہ بتادیں۔

جواب

1۔واضح رہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑےہوکرپانی پینےکی ممانعت بھی منقول ہےاوراجازت بھی، اجازت کی روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رویت بھی ہے جس کا سوال میں حوالہ دیاگیا، فقہاء اور محدثین نے ان دونوں طرح کی روایات میں تطبیق اس طرح دی  ہیں کہ بلاضرورت کھڑے ہوکرپانی پینامکروہِ تنزیہی (خلافِ اولیٰ) ہے ،البتہ اگرکسی ضرورت کے تحت مثلاً رش ہو  یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہوتوایسی صورت میں کھڑے ہوکرپانی پینا جائز ہوگا، لہٰذا  آبِ زمزم یا وضوکابچاہواپانی کےعلاوہ کسی اورموقع پراگربیٹھنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو کھڑے ہو کر پانی پینا ناپسندیدہ ہے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"واعلم أنه روي في الشرب قائما أحاديث كثيرة. منها: النهي عن ذلك، وبوب عليه مسلم بقوله: باب الزجر عن الشرب قائما. وحدثنا هداب بن خالد حدثنا همام حدثنا قتادة عن أنس أن النبي، صلى الله عليه وسلم، زجر عن الشرب قائما، وفي لفظ له عن أنس عن النبي، صلى الله عليه وسلم، أنه نهى أن يشرب الرجل قائما. قال قتادة: فقلنا: فالأكل؟ قال: ذاك أشد وأخبث. ....... ومنها: إباحة الشرب قائما، فمن ذلك ما رواه البخاري وبوب عليه: باب الشرب قائما، على ما يأتي، فقال: حدثنا أبو نعيم حدنا مسعر عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال، قال: أتى علي.، رضي الله تعالى عنه، على باب الرحبة بماء، فشرب قائما، فقال: إن ناسا يكره أحدهم أن يشرب وهو قائم، وإني رأيت النبي، صلى الله عليه وسلم، فعل كما رأيتموني فعلت) . .......... وروى الطحاوي أيضا، فقال: حدثنا ابن مرزوق، قال: حدثنا أبو عاصم عن ابن جريج، قال: أخبرني عبد الكريم ابن مالك: (قال: أخبرني البراء بن زيد أن أم سليم حدثته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم شرب وهو قائم في قربة) . وفي لفظ له: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها، وفي بيته قربة معلقة، فشرب من القربة قائما. وأخرجه أحمد والطبراني أيضا. وقال النووي: إعلم أن هذه الأحاديث أشكل معناها على بعض العلماء، حتى قال فيها أقوالا باطلة، والصواب منها: أن النهي محمول على كراهة التنزيه، وأما شربه قائما فلبيان الجواز".

(كتاب الحج، باب احرام المقارن، ج:9، ص:279، ط:دارإحياء التراث العربي)

2۔بلا عذر کھڑے ہوکر پانی پینا مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں  بیٹھ کر پانی نوش فرماتے تھے، ذیل میں کھڑے ہو کر پانی پینے  کے ممانعت کے بارے میں دو روایات بطورِ نمونہ کے نقل کی جاتی ہیں:

مسلم شريف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پانی پینے میں سرزنش فرمائی ،

"حدثنا هداب بن خالد، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن أنس، «أن النبي صلى الله عليه وسلم زجر عن الشرب قائما»(مسلم)".

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایک بھی  کھڑے ہوکر پانی ہرگز نہ پیئے، اور اگر کوئی بھولے سے پی لے تو اسے چاہیے کہ قئے کرلے:

"أخبرني أبو غطفان المري، أنه سمع أبا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يشربن أحد منكم قائما، فمن نسي فليستقئ» (مسلم)".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں