بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خرچ کے پیسوں سے بچا کر پلاٹ خریدنے سے وہ کس کی ملکیت ہوتا ہے؟ نیز مکان محض نام کرنے کا حکم.


سوال

میری بیوی کی جائیداد ہے،لیکن کاغذات میں شوہر ہونے کے ناطے میرا نام لکھا ہوا ہے،باقی بیوی نے کچھ نہیں کہا کہ یہ گفٹ ہے وغیرہ،یہ ایک پلاٹ تھا جس پر بعد میں ہم نے تعمیر کروائی،اس طرح کہ اس پر تین فلور بیوی ہی نےاپنے ذاتی پیسوں سے بنوائے،اور ایک فلور والد صاحب سے ادھار لے کر بنایا،(جس کی ادائیگی بھی بیوی ہی کرے گی)کل چار فلور بنادیے،اور وہ چاروں کرایہ پر دیے ہوئے ہیں اور کرایہ ،اور کرایہ داروں کے تمام معاملات بیوی ہی دیکھتی ہے،میں کرایہ لا کر بیوی ہی کو دیتا ہوں ،پھر وہ گھر میں ہی خرچ کرتی ہے ،بیوی اورمیرے تعلقات نو سال سے خراب ہیں ،اب بیوی کہتی ہے کہ اس جائیداد کو بچوں کے نام کر دو،لیکن میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں،ہمارا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ جائیداد میری ہے یا بیوی کی؟اور میں اسے بچوں کے نام کروا  دوں یا نہیں؟

وضاحت : میں بیوی کو گھر خرچ اور جیب خرچ کے لئے پیسے دیا کرتا تھا،اوراسے مکمل اختیار ہوتا  تھا کہ وہ جہاں چاہے ان پیسوں کو خرچ کرے،ان پیسوں سے میرا پھر کوئی لینا دینا نہیں،بیوی نے انہی پیسو  ں میں سے جمع کر کر کے ایک خالی پلاٹ لیا تھا،جو ہماری رہائش کے متصل تھا،جس پر اہلیہ نے اپنی ذاتی رقم سے تعمیر کرائی،بیوی کی ملکیت میں اس کے علاوہ اور کوئی جائیداد وغیرہ نہیں ہے ،اور بچوں کے نام کرنے کا مقصد ان کو مالک بنا کر دینا نہیں ہے،کیونکہ وہ تو اپنے اپنے گھروں میں خوشی سے رہ رہے ہیں،بس فقط میرے نام سے ہٹانا مقصد ہے،اور بیوی یہ کہتی ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں یہ میرا ہی ہوگا لیکن بچوں کے نام اس لیے کروا رہی تا کہ میرے بعد یہ ان کا ہو جائے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل  خرچ کے پیسے چونکہ بیوی کو مالک بنا کر مکمل اختیار کے ساتھ دیتا تھاکہ بیوی جہاں چاہے خرچ کرے،اور بیوی نے ان پیسوں میں سے بچا بچا کر مذکورہ پلاٹ خریدا،اور پھراپنی ذاتی رقم سے اُس پر تعمیرات کیں ،تویہ سب بیوی کی ملکیت ہے،کاغذات میں سائل کا نام لکھوانے سے وہ سائل کی ملکیت نہیں بنا،لہذا اگر بیوی اپنی جائیداد اپنے بچوں کے نام کروانا چاہتی ہے تو کرا سکتی ہے، کیونکہ وہ مالک ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:  

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

(ج: 5، ص:689، کتاب الھبة،ط: سعید)

وفيه أيضًا:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(ج: 5، ص:690، کتاب الھبة،ط: سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے: 

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(4/378، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، ط: رشیدیة) 

شرح المجلہ میں ہے:

"کل یتصرف فی ملکه کیف شاء."

(ج:4،ص:132،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100742

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں