بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانوں وغیرہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر شئیر کرنا


سوال

آج کل یہ رواج چل پڑا ہے کہ لوگ اپنے  پرتکلف کھانوں ،  تفریحی مقامات اور مختلف ہوٹلوں وغیرہ  کی تصاویر اور ویڈیوز   سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے دوسروں کو دکھاتے ہیں، جن میں سے بعض کی غرض دیکھنے والوں کو معلومات مہیا کرنا ہوتا ہے،جنہیں امیر غریب اور متوسط  ہر طبقے کے لوگ دیکھتے ہیں، ( حالاں کہ یہی تمام معلومات تمام لوگ خود بھی نیٹ  پر دیکھ سکتے ہیں) ،اس سے  عمومی تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ  یہ شخص اپنا معیارِ زندگی  دوسروں کو دکھانا چاہ رہا ہے، جس سے دوسرے لوگ جن کو یہ سہولیات میسر نہیں ہوتیں جانے انجانے میں  ان کی دل شکنی ہوتی ہے اور ان  کے اندر احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے۔

کیا یہ تمام افعال شریعت کی رو سے درست ہیں ؟کیا یہ ریا کاری اور نمود و نمائش کے زمرے میں داخل نہیں ؟ایسی صورت میں ہمارے مذہب کی کیا تعلیمات ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ اول تو سوشل میڈیا  پرنشر کیا جانے والا مواد ہی اگر جاندار اشیاء  کی تصاویر  یا ویڈیوز پر مشتمل ہو ، یا اس میں موسیقی ہو  یا اُس  پر  لگایا گیا اشتہار  غیر شرعی ہو ،مثلاً  کسی حرام چیز جیسے  شراب وغیرہ کا ہو ،یا اشتہار میں جاندار کی تصاویر وغیرہ ہوں، یاکسی بھی قسم کا  کوئی غیر شرعی معاہدہ کیا گیا ہو  ، تو اس طرح کاموادمیڈیا پر نشر کرنا،شیئر کرنا یا اس سےپیسے کمانا  ناجائز  اور حرام ہے،اور اگر یہ ساری  خرابیاں نہ بھی ہوں اور صرف کھانوں،تفریحی مقامات ،مہنگے ہوٹلوں اور دیگر مختلف چیزوں کی تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ ہی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جائیں ، تب بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کی چیزیں نشر کرنے میں اکثر اوقات لوگوں کی خوشنودی یا ذاتی شہرت و نمود کا جذبہ اور لوگوں میں مقام و مرتبہ پانے یا ان کے درمیان نمایاں ہونےاور  اُس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کا جذبہ بھی شاملِ حال ہوتا ہے ،ایسے کاموں میں جہاں شریعت کے احکامات کی کھلم کھلا   خلاف ورزی کرکے اعلانیہ گناہ کیے جاتے ہیں   ، وہیں ایسے لوگ  دوسروں  کے لیے  بھی   گناہوں کے اختیار کرنے کا سبب بنتے ہیں ،اس کے علاوہ خود نمائی او رخود ستائی کے یہ جذبات مزید کئی اخلاقی اور روحانی امراض جیسے بغض،تکبراور حسد،وغیرہ  کو جنم دیتے ہیں ،اور دوسروں میں  منتقلی  کا سب  بھی بنتے ہیں ،حدیثِ پاک میں آتاہے کہ گناہوں کی طرف راہ نمائی کرنے والا، اس راہ نمائی کی وجہ سے گناہ میں پڑ جانے والے کے ساتھ وبال میں شریک ہوتا ہے،اور یہ کام ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے،اور ہر وہ کام جو اللہ پاک کی ناراضگی کو متوجہ کرے اُس سے اجتناب کرنالازم ہے۔

چناں چہ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

"عن المنذر بن جرير، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن سنة حسنة فعمل بها، كان له أجرها ومثل أجر ‌من ‌عمل ‌بها، لا ينقص من أجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه وزرها ووزر ‌من ‌عمل ‌بها، لا ينقص من أوزارهم شيئا."

(سنن إبن ماجة،باب من سن سنة حسنة أو سيئة، ص:114،ط:رحمانية)

ترجمہ:"جس نےكوئي نیک بات (یعنی كوئي ايسا عمل جو شريعت كي رو سے باعثِ ثواب هو) جاری کيا، اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا  ثواب کچھ   بھی کم ہواور جس نےکوئی بری بات اور برا طریقہ(یعنی جو شریعت کی رو سے درست نہ ہو)  جاری کیا،اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بوجھ(گناہ) ہے اور ان لوگوں کا بھی ،جو اس پر عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بوجھ(گناہ) کچھ کم ہو ۔"

مسندِ احمد میں  ہے:

"عن أبي طلحة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة»".عن أبي طلحة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ‌لا ‌تدخل ‌الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب."

(مسند المدنیین،‌‌حديث أبي طلحة زيد بن سهل الأنصاري عن النبي صلى الله عليه وسلم،274/26،ط:مؤسسة الرسالة)

وفیہ ایضاً:

"عن عاصم بن عبيد الله، عن سالم، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم ."

(مسند المكثرين من الصحابة،مسند عبدالله بن عمرو رضي الله عنه،412/8،ط:مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

 ( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة،647/1، ط: سعید )

مزید خرابی یہ کہ  ان  کاموں میں ریا کاری   بھی شامل ہوجاتی ہے ، جس کی وجہ سے چاہے دکھانے والا ریا کاری کا اظہار نہ بھی کرے، تب بھی دیکھنے والے  اکثر یہی  سمجھتے ہیں کہ یہ شخص اپنا معیارِ زندگی دوسروں کو دکھانا چاہتا ہے، جس سےدوسروں کے اندر احساسِ کمتری اور اپنے پاس موجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں ناشکری پیدا ہوتی ہے،اور مزید خرابی یہ کہ اس سےایذاۓ مسلم بھی  لازم آتی ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «المسلم ‌من ‌سلم ‌المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه» هذا لفظ البخاري ولمسلم قال: " إن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم: أي المسلمين خير؟ قال: ‌من ‌سلم ‌المسلمون من لسانه ويده."

(کتاب الإیمان ،الفصل الثانی،13/1،ط:رحمانية)

اورکوئی نیکی بھی اگر  خالص اللہ  کےلیے کرنے کے بجائے لوگوں کو دکھانے کےلیے کی جائے ،اور اللہ  کی خوشنودی کے بجائےلوگوں کی خوشنودی یا ان کے درمیان نمایاں ہونے کے جذبے سے کی جاۓ   تو یہ ریا کاری ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک  سخت مذموم اورناپسندیدہ عمل ہے۔

 کیوں کہ انسان کی عبادت اور اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، اگر نیت خالص ہے تو اعمال اللہ کے ہاں اعمال قبول ہوتے ہیں، اگر نیت میں کھوٹ ہے یا ریاکاری یا نام ونمود مقصود ہے، تو ایسے اعمال بجائے قبولیت کے ،انسان کے لیے موجبِ وبال بنیں گے،اللہ رب العزت نےمختلف آیات میں  ریاکاری کی مذمت بیان فرمائی ہے۔

چنانچہ ارشاد  باری تعالیٰ ہے:

’’وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِر وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَاۗءَ قَرِیْنًا۔‘‘ (النساء:38)

ترجمہ:"جو لوگ  کہ اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھلاوے کے لیےخرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اورآخری دن پراعتقاد نہیں رکھتےاور شیطان جس کا مصاحب ہو،اس کا بُرا مصاحب ہے۔"

( بیان القرآن،118/2،ط:میر محمد)

ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘ (البقرہ :264)
ترجمہ:"اے ایمان والو! تم احسان جتا کر یا ایذا پہنچا کرپنی خیرات کوبرباد مت کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کو دکھلانےکی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتااللہ پراور یومِ قیامت پر."

(بیان القرآن،158/1،میر محمد)

ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریاکار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اللہ سے اس کو اجر کی توقع نہیں، کیوں کہ جس سے توقع ہوگی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریاکار کو خالق کے بجائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے،اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں ہوتا کہ اگر ایمان ہوتا تو ہرگز خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی خوشنودی اور اس سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا،احادیثِ مبارکہ میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاکاری کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے، چناں چہ مشکاۃ المصابیح میں  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے:

"وعن أبي سعيد الخدري قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نتذاكر المسيح الدجال فقال: «‌ألا ‌أخبركم بما هو أخوف عليكم عندي من المسيح الدجال؟» فقلنا: بلى يا رسول الله قال: «الشرك الخفي أن يقوم الرجل فيصلي فيزيد صلاته لما يرى من نظر رجل» . رواه إبن ماجه."

( مشكاة المصابيح،كتاب الرقاق،باب الرياء والسمعة،الفصل الثالث،468/2،ط:رحمانية)

ترجمہ :"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دفعہ مسیح دجال کے بارے میں گفتگو کررہے تھے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لاۓ اور فرمایا:کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: ہاں! کیوں نہیں؟! فرمایا: وہ شرکِ خفی ہے کہ آدمی کھڑا ہوکر نماز پڑھے اور کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔"

دوسری حدیث میں ہے:

"عن أبي سعد بن أبي فضالة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا جمع الله الناس يوم القيامة ليوم لا ريب فيه نادى ‌مناد: من كان أشرك في عمل عمله لله أحدا فليطلب ثوابه من عند غير الله فإن الله أغنى الشركاء عن الشرك. رواه أحمد."

(مشكاة المصابيح،كتاب الرقاق،باب الرياء والسمعة،الفصل الثانی،467/2،ط:رحمانية)

ترجمہ:" سیدنا ابو سعد بن ابو فضالہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا:’’ جس نے اللہ کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر اللہ سے طلب کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔"

 ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وعن جندب قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌سمع سمع الله به ومن يرائي يرائي الله به» . متفق عليه"

(مشكاة المصابيح،كتاب الرقاق،باب الرياء والسمعة،الفصل الأول467،ط:رحمانية)

ترجمہ:"جوشخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے رسوا کر دے گا۔"

لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ  ایسےفضول اور لایعنی کاموں سے بچیں ،جس میں  سرے سےنہ تو دین کا فائدہ ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی معتد بہ فائدہ ہے،بلکہ گناہوں اور اخلاقی برائیوں  کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ   مال اور وقت کا بھی بےجا ضیاع ہے، اور ایک مسلمان کے لیے اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنا اسلامی تعلیمات کے  سراسرخلاف ہے،  قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فضول کاموں سے بچنے کو ایمان والوں کی صفت قراردیا ہے، (سورۃ المؤمنون:3)، اسی طرح حضور اکرمﷺ  نے  اُن تما م لایعنی کاموں  سے بچنے کو کامل ایمان کی علامت قرار دیا ہے، جن میں اچھا خاصا وقت بغیر کسی  دینی یا دنیوی فائدے کے ضائع ہو جاتا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ کام  مباح ہو یا غیرمباح ۔

قرآن کریم میں فرمان ِباری تعالیٰ ہے:

"قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ (2) وَالَّذِينَ هُمْ ‌عَنِ ‌اللَّغْوِ ‌مُعْرِضُونَ (3).(المؤمنون)"

ترجمہ:" بالتحقیق ان مسلمانوں نے فلاح پائی،جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں۔"

(بیان القرآن،85/7،ط:میر محمد)

اورحدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے:

"عن علي بن حسين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه."

(سنن الترمذي،أبواب الزهد،‌‌باب فيمن تكلم بكلمة يضحك بها الناس،506/2،ط:رحمانیة)

یعنی" انسان کا اسلام اسی وقت اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بے فائدہ اور فضول چیزوں کو چھوڑدے"،  لہذا ایسے  لایعنی اور غیر مفید کاموں میں وقت کو ضائع کرنا  درست نہیں ہے،بلکہ ایمان والے کو  ہر فضول بات اور کام سے بچنا چاہیے۔

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ عنہ نےتفسیر ِمعارِف القرآن میں "لغو" کی  تفسير  اس طرح فرمائی ہے:

"لغو کے معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو، لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے، اس سے پرہیز واجب ہے، اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر،اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے، حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "من حسن اسلام المرأ ترکه مالا یعنیه"، یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے، جب کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے، اسی لیے آیت میں اس کو مومن ِکامل کی خاص صفت قرار دیا ہے۔"

(معارف القرآن ،زیرِعنوان:"مومنِ کامل کا دوسرا وصف"،296/6،ط:معارف القرآن، کراچی)   

نصوص سے قطع نظر  اگر ذرا سی عقلِ سلیم نصیب ہو تو بھی ایسے افعال  کی مذمت وممانعت میں شبہ کرنے کی  کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، بالخصوص اگر کوئی شخص اپنے ملک اور شہر میں  غربت کے حالات اور واقعات سے واقف ہو اور اس کےدل میں انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور اور ان کی معاشی مشکلات  کا درد موجود ہو تووہ ایسا عمل کرنے کی کوشش بھی نہ کرے ،نیز خاص کر جب دیگر افراد کو ضرورت بھی ہو ،شریعت کی تعلیم تو یہاں تک ہے کہ اگر  کوئی چیز خود کھائی جاۓ تو وہی چیز اپنے مسلمان بھائی کو بھی دی جاۓ،اگر کسی  غریب اور بھوکے شخص کے سامنے کھانا کھاۓ تو اسے بھی کھانے میں شریک کرے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم سے کم اس کے سامنے کھانا کھا کر اس کی دل شکنی نہ کی جاۓ۔

لہٰذا اہلِ ایمان کو چاہیے کہ ایسے  لایعنی اور غیر مفید کاموں میں وقت کو ضائع کرنے سے حتی الامکان بچیں، حقوق اللہ  و حقوق العباد کا خیال رکھیں، شریعت کے احکامات کی پاسداری کریں، نام و نمود کے لیے، کسی کو نیچا دکھانے کے لیے، کسی کو کم تر باور کرانے کے لیے اور لوگوں  کی آنکھوں میں حسرتیں بکھیرنے کے لیے کھانوں اور اللہ کی عطا کردہ دیگر نعمتوں کا اس طریقے سے اظہار شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے، بلکہ ایسے اعمال اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من حسن إسلام المرء) أي: من جملة محاسن إسلام الشخص وكمال إيمانه (تركه ما لا يعنيه) ، أي: ما لا يهمه ولا يليق به قولا وفعلا ونظراوفكرا فحسن الإسلام عبارة عن كماله، وهو أن تستقيم نفسه في الإذعان لأوامر الله تعالى ونواهيه، والاستسلام لأحكامه على وفق قضائه وقدره فيه، وهو علامة شرح الصدر بنور الرب، ونزول السكينة على القلب، وحقيقة ما لا يعنيه ما لا يحتاج إليه في ضرورة دينه ودنياه، ولا ينفعه في مرضاة مولاه بأن يكون عيشه بدونه ممكنا، وهو في استقامة حاله بغيره متمكنا، وذلك يشمل الأفعال الزائدة والأقوال الفاضلة، فينبغي للمرء أن يشتغل بالأمور التي يكون بها صلاحه في نفسه في أمر زاده بإصلاح طرفي معاشه ومعاده، وبالسعي في الكمالات العلمية والفضائل العملية التي هي وسيلة إلى نيل السعادات الأبدية، والفوز بالنعم السرمدية، ولعل الحديث مقتبس من قوله تعالى: {والذين هم عن اللغو معرضون} [المؤمنون: 3]."

(کتاب الآداب،باب حفظ اللسان والغيبة والشتم،3040،41/7، ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں