بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے کے دوران پانی پینا


سوال

کھانا کھانےکے دوران کس وقت پانی پینا سنت ہے اول درمیان یا آخر میں؟

جواب

کھانے سے پہلے، کھانے کے درمیان میں اور کھانے کے بعد پانی پینے میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں،  نبی اکرم علیہ الصلاۃ والسلام کا اس میں  ہمیشہ یک ساں معمول نہیں تھا، بلکہ جب جیسی ضرورت اور تقاضا ہوتا تھا پانی نوش فرماتے تھے، اس لیے کھانے کے دوران کسی خاص وقت پانی پینے کو سنت اور دوسرے وقت پینے کو خلافِ سنت کہنا مشکل ہے۔

امام ابن القیم جوزیؒ نے ’’زاد المعاد‘‘  میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ نبی اکرم علیہ الصلاۃ والسلام کھانے کے فوراً بعد پانی نوش نہیں فرماتے تھے، اور اُس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ  کھانے سے پہلے یا کھانے کے بعد پانی پینے سے ہضم میں دشواری ہوتی ہے، تقریباً  یہی بات شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ’’مدارج النبوۃ ‘‘ میں بھی تحریر فرمائی ہے؛ لیکن دوسری طرف بعض احادیث میں نبی اکرم علیہ الصلاۃ والسلام کا کھانے کے بعد پانی اور مشروب نوش فرمانا ثابت ہے، اور خود علامہ ابن القیمؒ نے اپنی دوسری کتاب ’’طبِ نبوی‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر پیاس محسوس ہو تو کھانے کے بعد پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ ایک دم سے سے بہت زیادہ نہ پیا جائے؛ بلکہ تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے کر پیا جائے، اس طرح پینے سے معدہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

’’خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم أو ليلة فإذا هو بأبي بكر وعمر، فقال: ما أخرجكما من بيوتكما هذه الساعة؟ قالا: الجوع يا رسول الله! قال: وأنا والذي نفسي بيده لأخرجني الذي أخرجكما، قوموا! فقاموا معه فأتى رجلاً من الأنصار فإذا هو ليس في بيته، فلما رأته المرأة قالت: مرحباً وأهلاً فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين فلان؟ قالت: ذهب يستعذب لنا من الماء، إذ جاء الأنصاري فنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحبيه، ثم قال: الحمد لله ما أحد اليوم أكرم أضيافاً مني! قال: فانطلق فجاءهم بعذق فيه بسر وتمر ورطب، فقال: كلوا من هذه وأخذ المدية، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياك والحلوب! فذبح لهم فأكلوا من الشاة ومن ذلك العذق وشربوا، فلما أن شبعوا ورووا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر وعمر: والذي نفسي بيده لتسألنّ عن هذا النعيم يوم القيامة، أخرجكم من بيوتكم الجوع ثم لم ترجعوا حتى أصابكم هذا النعيم‘‘. (صحیح مسلم، باب جواز استتباعه غيره إلى دار من يثق برضاه بذلك وبتحققه تحققًّا تامًّا واستحباب الاجتماع على الطعام،2/177،ط:قدیمی)

یعنی رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بکری کا گوشت اور کھجوریں تناول فرمائیں اور پانی پیا،  اور شکم سیر ہوگئے اور سیراب ہوگئے۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے’’مدارج النبوۃ،جلد اول ،باب یازدھم درعبادات وطعام وشراب‘‘  ص:466 پر لکھا ہے :

’’وآن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم  آب برطعام نمی خورد کہ مفسد ست،وتاطعام ہانہضام نیایدآب نبایدخورد‘‘۔ (مدارج النبوۃ،جلد اول ،ط:مطبع نول کشور لکھنو)

’’زادالمعاد ‘‘  میں ہے:

’’والماء العذب نافع للمرضى والأصحاء، والبارد منه أنفع وألذّ، ولاينبغي شربه على الريق ولا عقيب الجماع ولا الانتباه من النوم ولا عقيب الحمام ولا عقيب أكل الفاكهة و قدتقدم، وأما على الطعام فلا بأس به إذا اضطر إليه بل يتعين، و لايكثر منه بل يتمصّصه مصًّا؛ فإنه لايضره البتة، بل يقوى المعدة، وينهض الشهوة، و يزيل العطش‘‘.(1/304، ط: دارالفکر) فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144108201766

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں