بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندانی قطع تعلقی کی شرعی حدود


سوال

ہمارے ہاں دو فریقوں میں زمینی تنازعہ چل رہاہے اور لڑائی جھگڑا بھی کئی دفعہ ہوچکاہے اور ایک فریق کے بارےمیں عدالت سے بھی  فیصلہ آچکاہے کہ زمین اس کی ہے، پھربھی دوسرا فریق،  جوناحق ثابت ہوچکاہے ،مشکل پیدا کررہاہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ جس فریق کے حق میں فیصلہ آچکاہے، ان لوگوں نے سلام کلام بند کیاہواہے اور پورے خاندان کو حتی کہ علماء کو بھی اس کاپابند کیا جا رہا ہے کہ مخالف فریق سے ہرقسم کی قطع تعلقی کی جائے، باوجود یہ کہ مخالف فریق ان میں سے اکثرکے رشتہ دار اور پڑوسی ہیں،  تو کیاشریعت کی روسے یہ قطع تعلقی جائزہے ؟اور پورے خاندان کو اس کا پابندکرناکیساہے؟ان کے غم اور شادی میں شرکت سے روکنا کیساہے؟اگر یہ بھی واضح کیا جائے کہ کن صورتوں میں قطع تعلقی جائزہے تواحسان عظیم ہوگا؟

جواب

واضح ہو کہ قطع تعلقی کرنے والے کے لیے احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ حدیث میں ہے :

" إن جبير بن مطعم، أخبره: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يدخل الجنة قاطع»۔"

صحيح البخاري (8/ 5)

ترجمہ : حضرت  جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔

تاہم  کسی مسلمان سے قطع تعلقی کی جائز صورتیں یہ ہیں :

1 : وہ شخص اعلانیہ فسق و فجور یا بدعات وغیرہ میں مبتلا ہو۔

2 : کسی گناہ میں مبتلا شخص سے اس نیت سے قطع تعلقی کرنا کے وہ اس کی وجہ سے اس گناہ کو چھوڑ دےگا۔

3 : کسی شخص سے تعلق رکھنے میں دین یا دنیا کے نقصان کا اندیشہ ہو اور قطع تعلقی کرنے والا شخص حق پر نہ ہو۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالا تفصیل کے بعد جن لوگوں کا حق مارا گیا ہے، ان کے لیے اپنے حق کی خاطر فریقِ مخالف سے قطع تعلقی کی گنجائش ہے، البتہ خاندان / برادری کے وہ دوسرے لوگ، جن کو فریقِ مخالف سے تعلق رکھنے میں دین یا دنیا کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو، ان لوگوں کا فریقِ مخالف سے قطع تعلقی کرنا ناجائز ہے، کیوں کہ یہ تعصب، بغض و کینہ کی وجہ سے قطع تعلقی ہوگی جس کی احادیث میں ممانعت ہے۔ اسی طرح اگر ایسے لوگ تو فریقِ مخالف سے تعلق رکھنا چاہتے ہوں،  لیکن اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے انہیں قطع تعلقی پر مجبور کیا جارہا ہو تو یہ بھی ظلم اور طاقت کا نا حق استعمال ہے جو کہ سخت گناہ ہے۔

"قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق، فإنه صلى الله عليه وسلم لما خاف على كعب بن مالك وأصحابه النفاق حين تخلفوا عن غزوة تبوك أمر بهجرانهم خمسين يوما، وقد هجر نساءه شهرا وهجرت عائشة ابن الزبير مدة، وهجر جماعة من الصحابة جماعة منهم، وماتوا متهاجرين، ولعل أحد الأمرين منسوخ بالآخر.

قلت: الأظهر أن يحمل نحو هذا الحديث على المتواخيين أو المتساويين، بخلاف الوالد مع الولد، والأستاذ مع تلميذه، وعليه يحمل ما وقر من السلف والخلق لبعض الخلف، ويمكن أن يقال الهجرة المحرمة إنما تكون مع العداوة والشحناء، كما يدل عليه الحديث الذي يليه، فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (8 / 3147)

"(قوله : باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)

أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها۔"

(فتح الباري لابن حجر (10 / 497)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں