بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندان والوں کا نکاح کرنے میں رکاوٹ بننا


سوال

جناب میں عاجزی سے درخواست کرتی ہوں کہ میرے لئے دعا فرمائیں، میرا رشتہ بچپن سے طے شدہ ہے، لڑکا امیر ہے جدی پشتی، اور اس نے میری خاطر تعلیم حاصل کی اور نوکری بھی ڈھونڈ لی گورنمنٹ کی، میرے والد وفات پا گئے ہیں، اور اب چچا لوگ میرا نکاح نہیں ہونے دے رہے، ان کی نظر لڑکے کے مال پر ہے، اور میری بیوہ ماں اکیلی میرے لئے ہلکان ہو رہی ہے، لڑکے کی عمر 30 سال اور میری عمر 25 سال ہے، ہم دونوں کو شدید حسد کا سامنا ہے، نوکری کی وجہ سے اس لڑکے کو بہت ساری اور لڑکیاں بھی مل رہی ہیں اور یہ بات مجھے تکلیف دیتی ہے، میں نے اپنے چچا لوگ، نانی، خالہ، یا ماموں کی مدد لینے کی کوشش بھی کی ہے لیکن وہ مجھ سے رقم / لڑکے کے مال کا تقاضا کرتے ہیں، مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے، لڑکے کو بتایا ہے اور ساری بات بتا بھی نہیں سکتی ہوں، تو آپ ہی بتائیں کیا کروں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ رشتہ مناسب ہو لڑکا دیندار اور باشرع ہو، تو چچا وغیرہ کا اس میں رکاوٹ بننا قطعا جائز نہیں ہے، اور وہ لوگ اگر وقعۃً لڑکے کے مال کامطالبہ کرہے ہوں، تو ان کے لیے مال کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ مال ان کے لیے لینا جائز ہے۔ سائلہ اپنی والدہ کے توسط سے  اپنے دیگر مخلص رشتہ داروں کے توسط سے اس رشتہ کے لئے تعاون لے سکتی ہے۔

باقی پنج  وقتہ  نمازوں  کی ادائیگی اور  دیگر  فرائض  بجالانے  کے  ساتھ  ساتھ   صدقِ  دل  سے نمازوں کے بعد اور تہجد  و  غروب کے وقت دعا مانگیں، اور  صلاۃ الحاجات کا اہتمام کریں، اور  { رَبِّ إِنِّي لِمَاأَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ} کا کثرت سے ورد کریں۔

مصنف عبد الرزاق  الأعظمی میں ہے:

"عن يحيى بن أبي كثير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إذا ‌جاءكم ‌من ‌ترضون أمانته وخلقه فأنكحوه كائنا من كان، فإن لا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد كبير»، أو قال: «عريض»."

(كتاب النكاح، ‌‌باب الأكفاء، ج: 6، ص: 152، رقم: 10325، ط: المجلس العلمي- الهند)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشری)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں