ایک آدمی جو کہ صاحب اولاد ہے،اس سے اس کے خاندان والوں نے رشتہ مانگا،جس کے جواب میں اس آدمی نے یہ کہا کہ اگر میں یہ رشتہ اپنے خاندان والوں کو دوں تو مجھ پر میری دونوں بیویاں طلاق ثلاثہ ہوں گی،اب یہ شخص اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے ہی خاندان میں دوسری جگہ دے رہا ہے،ابھی منگنی ہوئی ہے نکاح ہونا باقی ہے۔
اس کا کیا حکم ہے؟منگنی اور نکاح دونوں صورتوں میں نیز شریعت میں خاندان کا اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے؟
وضاحت:خاندان سے مراد یہ ہے کہ ایک دادا کی اولاد ہے،ایک بھائی کو رشتہ نہیں دیا دوسرے بھائی کو دے رہا ہے۔
مذکورہ جملہ" اگر میں یہ رشتہ اپنے خاندان والوں کو دوں تو۔۔۔۔الخ " سے اگر اس شخص کا مقصود خاندان والوں میں سے کسی سے رشتہ طے نہیں کروں گا یعنی منگنی وغیرہ مقصود تھا تو ایسی صورت میں بھائی کے ہاں منگنی طے کرنے سے اس کی دونوں بیویوں پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور دونوں بیویاں اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئیں۔
اور اگر رشتہ دینے سے مقصود نکاح میں دینا تھا تو صرف منگنی سے اس کی بیویوں پر طلاق واقع نہیں ہوگی،اگر باقاعدہ نکاح کردیا تو شرط پائے جانے کی وجہ سے اس کی دونوں بیویوں پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی،دونوں بیویاں اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائیں گی۔اس صورت میں تین طلاق سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ مذکورہ شخص اپنی دونوں بیویوں کوایک ایک طلاقِ رجعی دے دے ، اور عدت میں رجوع نہ کرے، جب دونوں بیویوں کی عدت ختم ہوجائے (یعنی تین ماہواریاں گزر جائیں یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل کے بعد) تو وہ بیٹی کا نکاح خاندان میں کردے ، ایسا کرنے سے یہ تعلیق ختم ہوجائے گی، اور چوں کہ اُس وقت دونوں بیویاں مذکورہ شخص کے نکاح میں نہیں ہوگی؛ اس لیے تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی اور شرط پوری ہوجائے گی، پھر میاں بیوی دوبارہ باہمی رضامندی سے مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں۔ لیکن آئندہ کے لیے شوہر کے پاس ہر ایک بیوی کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا۔
باقی خاندان کا اطلاق دادا، پردادا کی اولاد نیز والد کی اولاد یعنی بھائی بہن وغیرہ اور اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."
(کتاب الطلاق ،باب التعلیق ،ج:3،ص:355،سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت كالابن ثم ابنه وإن سفل."
( كتاب الفرائض، 6 /774، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100517
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن