بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندان کے بڑوں کا زبردستی لڑکی اور لڑکے کا نکاح کرانا


سوال

ہمارے گاؤں اور علاقہ میں ایک رواج ہے کہ عام طور پر بچیوں کے والدین بچپن میں رشتہ کا وعدہ کرلیتے ہیں،جس کوہماری زبان میں"لوز"کہا جاتا ہے،"لوز"رشتہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا والد آپس میں یہ عہد اور وعدہ کرلیتے ہیں کہ جب ہمارے یہ بچے بڑے ہوجائیں گے،تو ان کی آپس میں شادی کرائیں گے۔

میرے ساتھ بھی بچپن میں ایسا ہی ہوا،بالکل بچپن ہی میں میرے والد اور چچا نے ایسا عہد کیا تھا،اس وقت مجھے ان چیزوں کی سمجھ نہیں تھی،13،14 سال کی عمر میں جب مجھے ان چیزوں کی سمجھ آئی،تو میں نے اپنے والدین سے صراحتاً اس بات کا ذکر کیا کہ مجھے  چچازادبھائی پسند نہیں ہے،میرا نکاح اس سے نہ کراؤ،پورے علاقہ کے لوگ میری اس بات سے واقف تھے،غرض نہ چاہتے ہوئے بھی میرے والدین نے زبردستی میرا نکاح میرے چچا زاد سے کروادیا،رخصتی  کے بعد تقریباً تین چار سال تک ہم اس بات پر راضی نہیں تھے،پھر نہ چاہتے ہوئے مجھے کراچی لایا گیااور میرا شوہر بھی کراچی آیا،اسی دوران میری ایک بیٹی بھی پیدا ہوگئی،جس کی عمر تقریباً آٹھ سال ہے۔

وضاحت:نکاح کے وقت سائلہ سے کسی قسم کی کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی،بلکہ اس سے پوچھے بغیر ہی اس کا نکاح کر دیا گیا تھااوراطلاع ملنے کے بعد بھی سائلہ نے اس نکاح پر عدمِ رضا کا اظہار کیا تھا،سائلہ کے الفاظ یہ تھے کہ میں اس نکاح پر راضی نہیں ہوں،میرے والدین نے یہ نکاح کیا ہے،تو اپنے لیے کیا ہوگا،میں اس پر راضی نہیں ہوں۔

اب عرصہ5،6 سال سے میرے اور میرے شوہر کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوئے،میرے اور میرے شوہر کے درمیان ازدوجی تعلقات صرف اس حد تک ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی کمرہ میں رہتےہیں،اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے،نہ وہ مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہےا ور نہ ہی میں ان کو اپناشوہر سمجھتی ہوں،اب ہوا یہ کہ گزشتہ رمضان میں ہماری کسی بات پر بحث ہوئی،میرے شوہر نے کہا کہ تم نے ایسا کیا ہے،میں نے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے،میراشوہر بہت اصرار کرتا رہا،آخر  میں نے اس سے کہا کہ اگر میں نے ایسا کیا ہو تو میں تمہارے لیے ایسی ہوں گی، جیسا کہ تیری بہن ہے،یعنی جیسے تیری بہن تیرے اوپر حرام ہے،تو میرے شوہر نے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ "ہاں تم میرے لیے ایسی ہی ہو جیسے میری بہن"

دوسری بات یہ ہے کہ میرا شوہر کہتا ہے کہ نہ ہی میں تمہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی بیوی بناؤں گا،تیری ساری زندگی  ایسے ہی حسرت میں گزرے گی،صرف علاقہ والوں کے طعنوں او ر بڑوں کے ڈر کی وجہ سے وہ مجھے طلاق نہیں دیتااور نہ ہی میرے ساتھ  میاں بیوی والے تعلقات قائم کرتا ہے۔

اب سوال (1) یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے میرا جو زبردستی نکاح ہوا،آیا یہ جائز ہے کہ نہیں؟

(2)جب ہم دونوں ساتھ زندگی گزارنے اور ساتھ رہنے پر راضی نہیں ہیں اور نہ ہی تیار ہیں،ہمارے بڑے زبردستی ہمیں جبراً ایک ساتھ رکھنا چاہتے ہیں،تو کیا یہ شرعاً درست ہے کہ نہیں؟اس دوران اگر مجھ سے کوئی کبیرہ گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے ،تو اس کے ذمہ دار میرے والدین اور ہمارے بڑے ہوں گے کہ نہیں؟ 

(3)قرآن پر ہاتھ رکھ کر اس نے جو یہ کہاکہ"تم میرے لیے ایسی ہی ہو جیسے میری بہن"تو کیا اس کے بعد میرا اور اس کا نکاح  باقی رہتا ہے یا نہیں؟

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں جب نکاح کے وقت سائلہ سے کسی قسم کی کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی،بلکہ سائلہ سے پوچھے بغیر ہی اس کا نکاح کردیا گیا تھااوراطلاع  ملنے کے بعد سائلہ نے اس نکاح پر عدمِ رضا کا اظہار کیا تھا،تواس صورت میں  شرعاً یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہواتھا،لہذا سائلہ اور مذکورہ شخص دونوں پر لازم ہے کہ فوراًایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں اور جتنا عرصہ ایک ساتھ رہے ہیں،اس پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں خوب  توبہ و استغفار کریں۔

نیزمذکورہ صورت میں سائلہ پر عدت گذارنا لازم نہیں ہوگا،بغیرکسی مدت کے انتظار کےسائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

(2،3)جب نکاح ہی منعقد نہیں ہوا،توان سوالوں کے جوابات کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

الدر المختارمع رد المحتار میں ہے:

(وقوله : لا أجيز رد له) أي للبيع الموقوف، فلو أجازه بعده لم يجز؛ لأن المفسوخ لا يجاز

 

(رد المحتار، كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، فصل في الفضولي 5/ 115 ط: سعيد)

"فلا عدة في باطل"

و في الرد : (قوله: فلا عدة في باطل) فيه أنه لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح، بخلاف البيع كما في نكاح الفتح والمنظومة المحبية، لكن في البحر عن المجتبى: كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة، أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:3، ص:516، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں