بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے سے پہلے اوربعد میں ہاتھ دھونا سنت ہے یا گیلا کرنا؟


سوال

ہمارا دعوی ہے کہ دین اسلام دین فطرت ہے،  اس میں جو بھی حکم دیا جاتا ہے اس میں ہزار ہا حکمتیں ہوتی ہیں،  ایسے ہی ایک مسئلہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کا ہے،  اس میں بظاہر حکمت تو یہی ہے کہ ہاتھوں پے لگے ہوئے جراثیم اور گردوغبار دھو کر پھر کھانا کھایا جائے،  اس سلسلے میں رہنمائی  فرما دیں کہ آیا صرف ہاتھ گیلے کرنا ہی سنت ہے یا ہاتھوں کو اچھی طرح صابن وغیرہ سے دھونا سنت ہے؟ کھانے سے پہلے اور بعد، دونوں کا مسنون طریقہ بتا دیں!

جواب

واضح رہے کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کا دھونا سنت سے ثابت شدہ عمل ہے اور اس کو  کھانے کی برکت کا سبب بتایا گیا ہے ، اور حدیث میں ہاتھوں کو دھونے کا ذکر  ہے نہ کہ گیلا کرنے کا ۔ 

لہذاصورتِ مسئولہ میں کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کا  پانی سے دھونا سنت ہے ،نہ کہ گیلا کرنا،باقی  صابن سے ہاتھ دھونے کو سنت نہیں کہہ سکتے   ، البتہ اگر  کوئی زیادہ نظافت یا کھانے کی چکناہٹ کو ختم کرنے کے لیے صابن کا استعمال کرتا ہے تو اس میں  کوئی مضائقہ نہیں ، چناچہ معارف الحدیث میں ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مولانا منظور احمد نعمانی ؒ فرماتے ہیں کہ :

"حدیث میں سنگریزوں اور کنکریوں سے ہاتھ صاف کرنے کا ذکر جس طرح کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم  نے بھی اس وقت ایسا ہی کیا اس سے یہ بھی رہنمائی ملی کہ کھانا کھاکر تولیہ یا کاغذ یا کسی بھی ایسی چیز سے ہاتھ صاف کئے جاسکتے ہیں جس سے ہاتھوں کی صفائی ہوجائے اور ایسا کرنا بھی سنت کے دائرہ  ہی میں ہوگا"۔(ج:6 ص:397 / 398 ط:دار الاشاعت)

نیز ہاتھوں کو دھونے کا طریقہ یہی ہے کہ دونوں ہاتھوں کو اس طرح دھویا جائے کہ اس سے ہاتھوں کی میل وغیر صاف ہوجائے ۔

سنن  ترمذی میں ہے :

"عن سلمان قال: قرأت في التوراة أن بركة الطعام الوضوء بعده، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته بما قرأت في التوراة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "بركة الطعام الوضوء قبله والوضوء بعده".

(‌‌أبواب الأطعمة ، باب ما جاء في الوضوء قبل الطعام وبعده ج: 4 ص: 281 ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)

قوت المغتذی میں ہے :

"المراد به: الوضوء اللغوي، وهو [غسل] اليدين، والمراد بالبركة: حصول الزيادة فيه أو نفع البدن به".

(أبواب الأطعمة ج: 1 ص: 457 ط: كلية الدعوة وأصول الدين)

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن عبد الله بن الحارث بن جزء قال: أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بخبز ولحم وهو في المسجد فأكل وأكلنا معه ثم قام فصلى وصلينا معه ولم نزد ‌على ‌أن ‌مسحنا ‌أيدينا بالحصباء. رواه ابن ماجه".

(کتاب  الأطعمة ، ‌‌الفصل الثاني ج: 2 ص: 1218 ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے :

"(‌قوله: ‌وغسل ‌اليدين ‌قبله) لنفي الفقر ولا يمسح يده بالمنديل ليبقى أثر الغسل وبعده لنفي اللمم ويمسحها ليزول أثر الطعام، وجاء أنه بركة الطعام، ولا بأس به بدقيق".

(‌‌كتاب الحظر والإباحة ج: 6 ص: 340 ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں