بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے پینے کی اشیاء میں پھونک مارنا


سوال

 کھانے  پینے  کی چیز پر پھونک مارنا جائز  ہے یا نہیں؟

جواب

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے کی اشیاء میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے، مذکورہ حدیث کی وجہ سے فقہاءِ  کرام نے  کھانے پینے کی اشیاء میں پھونک مارنے کو مکروہ لکھا ہے، امام ابو یوسف رحمہ اللہ  فرماتے ہیں  کہ  مطلقاً  پھونک مارنا ممنوع نہیں ہے،  بلکہ اس انداز سے پھونک مارنا جس سے "اُف"   یا اس جیسی کوئی  آواز پیدا ہو، ایسی پھونک مارنا ممنوع ہے۔

شراحِ حدیث نے اس کی علت یہ بیان فرمائی ہے کہ ممکن ہے کہ پھونک مارنے کی وجہ سے تھوک کے چھینٹے یا ذرات کھانے میں چلے جائیں، جس کی وجہ سے کسی دوسرے کھانے والے کو اس سے کراہت آئے، اسی وجہ سے بعض شراح  نے یہ لکھا ہے کہ یہ حکم اس آدمی کے لیے ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ کھا رہا ہو ، چنانچہ  اگر کوئی شخص کسی برتن سے اکیلا کھا رہا ہو تو اُس کے لیے پھونک مارنا منع نہیں ہو گا۔

نیز  اگر کھانے پینے کی کسی  چیز میں دم کرنا مقصود ہو  اور دم کرنے کی غرض سے اُس میں پھونک ماری جائے تو یہ بھی ممنوع نہیں ہو گا۔

مسند أحمد ت شاكر (3/ 251):

"عن ابن عباس قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النفخ في الطعام والشراب."

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (21/ 200):

"وقال الملهب: التنفس إنما نهى عنه كما نهى عن النفخ في الطعام والشراب والله أعلم من أجل أنه لا بد أن يقع فيه شيء من ريقه فيعافه الطاعم له ويستقذر أكله فنهى لذلك لئلا يفسد على من يريد تناوله، وهذا إذا أكل أو شرب مع غيره، وإذا كان وحده أو مع من يعلم أنه لا يستقذر شيئا منه فلا بأس بالتنفس في الإناء."

البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج (34/ 176):

"وقال الحافظ: و الأولى تعميم المنع؛ لأنه لايؤمَن مع ذلك أن تَفْضلفضلة، أو يحصل التقذر من الإناء، أو نحو ذلك."

النتف في الفتاوى (1/ 245):

"وأما الكراهية فأولها النفخ في الطعام."

الموسوعة الفقهية الكويتية (41/ 24):

"ويرى أبو يوسف من الحنفية : أنه لايكره النفخ في الطعام إلا ما له صوت مثل أف وهو تفسير النهي."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 340):

"وعن الثاني أنه لايكره النفخ في الطعام إلا بما له صوت نحو أف وهو محمل النهي."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں