بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے کے دوران چھینک آجائے/ عورت کے لیے گدی پر بال باندھ کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

1۔کھانے کے دوران چھینک آوے تو کلی کرنا ضروری ہے؟

2۔عورت بالوں کو گدی میں باندھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

3۔عورت بالوں کو گدی میں باندھ کر نماز پڑھ رہی تھی اور نماز کے دوران بال کھل گئے تو نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔چھینک کے آداب میں سے ہے کہ جب چھینک آجائے، تو الحمد اللہ کہا جائے اور چھینک کے وقت منہ پرہاتھ یا کپڑا رکھ لیا جائے اور اگر کھانے کے دوران چھینک آجائے، تو اچھی طرح منہ اور ناک پر ہاتھ یا کپڑا وغیرہ رکھ لیا جائے، تاکہ کھانے میں ناک کی  رطوبات نہ گریں، البتہ اگر کھانے کے دوران چھینک آجائے اور ہاتھ خراب ہوجائیں، تو ہاتھ دھو لینے  چاہییں، کلی کرنے ضرورت نہیں ہے۔

2۔عورت کے لیے اپنے سر کے اوپر بالوں کا جوڑا باندھنا ناجائز نہیں ہے، چاہے نماز میں ہو یا عام احوال میں ہو، البتہ عورت کے لیے  گدی پر بال باندھنا جائز ہے اور اس حالت میں نماز پڑھنا بھی بلا کراہت جائز ہے۔

3۔عورت کے بال بھی ستر میں شامل ہیں اور بالوں کا نماز میں چھپانا بھی ضروری ہے، لہٰذا اگر نماز کے دوران عورت کے بال کُھل جائیں اور ایک چوتھائی بال یا اس سے زائد ظاہر ہوجائیں، تو نماز فاسد ہوجائے گی، البتہ اگر بال صرف کھل جائیں اور ظاہر نہ ہوں یا ظاہر تو ہوں، لیکن ایک چوتھائی سے کم کم ظاہر ہوں، تو ایسی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إذا عطس وضع يده - أو ثوبه- على فيه، وخفض -أو غض- بها صوته. شك يحيى(١)."

(اول كتاب الآداب، باب العطاس، ج:دار الرسالة العالمية)

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"حدثني زهير بن حرب، حدثنا جرير، عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا."

‌وأما ‌رؤوسهن ‌كأسنمة ‌البخت فمعناه يعظمن رؤوسهن بالخمر والعمائم وغيرها مما يلف على الرأس حتى تشبه أسنمة الإبل البخت هذا هو المشهور في تفسيره قال المازري ويجوز أن يكون معناه يطمحن إلى الرجال ولا يغضضن عنهم ولا ينكسن رؤوسهن واختار القاضي أن المائلات تمشطن المشطة الميلاء قال وهي ضفر الغدائر وشدها إلى فوق وجمعها في وسط الرأس فتصير كأسنمة البخت قال وهذا يدل على أن المراد بالتشبيه بأسنمة البخت إنما هو لارتفاع الغدائر فوق رؤوسهن وجمع عقائصها هناك وتكثرها بما يضفرنه حتى تميل إلى ناحية من جوانب الرأس كما يميل السنام قال بن دريد يقال ناقة ميلاء إذا كان سنامها يميل إلى أحد شقيها والله أعلم قوله صلى الله عليه وسلم."

(کتاب اللباس و زینہ، باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات،ج نمبر ۱۷ ص نمبر ۱۹۱،دار احیاء التراث)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وللحرة) ولو خنثى (جميع بدنها) حتى شعرها النازل في الأصح."

(قوله النازل) ‌أي ‌عن ‌الرأس، بأن جاوز الأذن، وقيد به إذا لا خلاف فيما على الرأس (قوله في الأصح) صححه في الهداية والمحيط والكافي وغيرها، وصحح في الخانية خلافه مع تصحيحه لحرمة النظر إليه، وهو رواية المنتقى واختاره الصدر الشهيد، والأول أصح وأحوط كما في الحلية عن شرح الجامع لفخر الإسلام وعليه الفتوى كما في المعراج."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:405، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں