کیا کھانے کا ٹوکن فروخت کرسکتے ہیں؟
واضح رہے کہ اگر کھانے کا ٹوکن خود اپنے پیسوں سے خریدا ہو(ادارہ کی جانب سے نہ ملا ہو)تو خود استعمال نہ کرنے کی صورت میں اتنےہی پیسوں میں بغیر کمی بیشی کے کسی دوسرے کو فروخت کرنا جائز ہے،تاہم اگر کھانے کا ٹوکن ملازم کو ادارہ یا کمپنی کی جانب سے دیا جاتا ہو کہ اس ٹوکن کے عوض ادارہ کی طرف سے کھانا کھایا جاسکتا ہو اور اسے آگے فروخت کرنا منع ہو تو ایسی صورت ملازم کے لیےاس ٹوکن کو آگے فروخت کرناجائز نہیں ہوگا،اور اگر ادارہ یاکمپنی کی طرف سے کسی قسم کا معاہدہ یا شرائط نہ ہوں تو اداره سے صراحتاً اجازت لے کرکھانے کا ٹوکن کسی دوسرے کو بالعوض یا بلاعوض دینا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"إذ من شرط المعقود عليه... وأن يكون ملك البائع فيما ببيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص: 58 , 59 ط:سعید)
دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :
"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال."
(الكتاب العاشر الشركات، الباب الثالث، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، المادة:1192، ج:3، ص:201، ط:دار الجيل)
الاشباه والنظائرلابن نجيم میں ہے :
"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه."
(الفن الثاني:فن الفوائد، كتاب الغصب، ص:243، ط:دار الكتب العلمية)
تبیین الحقائق میں ہے:
"أن المباح له ليس له أن يبيح لغيره."
(کتاب العاریة، ج:5، ص:83، ط:دار الكتاب الإسلامي)
امدادا لاحكام ميں هے:
”سوال : ریلوے کا قانون ہے کہ جوٹکٹ ایک شخص نے خرید لیا ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ اس ٹکٹ کودوسرے کے ہاتھ فروخت کر کے اس کو اپنی جگہ سوار کر دے شرعاًایسا کرنا کیسا ہے؟
جواب:شئ مستاجر میں اگر استعمال مختلف نہ ہو تو مستاجر کو جائز ہے کہ دوسرے کو عاریت یا اجارہ دے دے اور مختلف ہو تو جائز نہیں اور ظاہر یہ ہے کہ ریل میں استعمال مستعمل متفاوت نہیں ، لہذا شر عاریل کا ٹکٹ دوسرے کو فروخت کر کے اس کو اپنی جگہ بھیج دینا جائز ہے مگر زیادہ داموں میں فروخت نہ کرے بلکہ مثل اجرمسمی یا اس سے کم میں فروخت کرے ۔“(ماخوذ )
(مسائل متفرقہ، ج:4، ص:423، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100919
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن