بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے کے بعد اپنی پلیٹ اور دوسرے برتن صاف کرنا، چاٹنا اسلامی تعلیمات میں سے ہے


سوال

کیا کھانا ختم کرنے کے بعد اپنی پلیٹوں اور کھانا پکانے کے دوسرے سامان جیسے کھانا پکانے کا برتن، بڑا چمچ اور ڈش ٹرے چاٹنے کی ضرورت ہے تاکہ کھانا ضائع نہ ہو؟ یا صرف ان کی اپنی پلیٹیں؟ یہ اسلام کا حصہ ہے یا رسم؟

جواب

کھانے کے ذرات کو ضائع ہونے سے بچانا اسلامی تعلیمات میں سے ہے،بچے ہوئے کھانے کو چاٹنے یا کھانے کا ایک فائدہ حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس بچے ہوئے کھانے میں زیادہ برکت ہو جس سے اس میں موجود نعمتوں پر قناعت پیدا ہو یا عبادات کی مزید قوت پیدا ہو۔ نیز بعض احادیث میں یہ تعلیم بھی ہے کہ گرنے کے باوجود جو کھانا کھانے کے قابل ہو اس  کھانے کو شیطان کے لیے نہ چھوڑا جائے۔ شیطان کے لیے چھوڑے جانے کا  مطلب یہ ہے کہ شیطان چاہتا ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کر کے اسے ضائع کرے یا تکبر میں مبتلا ہوجائے اور بغیر عذر کے کھانے کے ذرات چھوڑنے میں اللہ کی نعمت کی نقدری بھی ہے اور مذکورہ عمل سے دن میں تکبر بھی پیدا ہوسکتا ہے لہذا شیطان اس سے خوش ہوگا، اس وجہ سے حدیث میں کھانے کو شیطان کے لیے چھوڑنے کی ممانعت ہے اور یہ معنی بچے ہوئے کھانے میں بھی پایا جاتا ہے۔

مذکورہ ادب میں اپنی پلیٹ کا کھانا اور دوسرے برتنوں کا کھانا دونوں شامل ہے، تاہم  برتنوں کو چاٹنا ضروری نہیں، بلکہ ان ذرات کو قابلِ استعمال بنانا ہے۔

صحيح مسلم  میں ہے:

" عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا وقعت لقمة أحدكم فليأخذها، فليمط ما كان بها من أذى وليأكلها، ولا يدعها للشيطان، ولا يمسح يده بالمنديل حتى يلعق أصابعه، فإنه لا يدري في أي طعامه البركة."

(كتاب الأشربة،  باب استحباب لعق الأصابع والقصعة، وأكل اللقمة الساقطة بعد مسح ما يصيبها من أذى، وكراهة مسح اليد قبل لعقها، ج3، ص1606، دار إحياء التراث العربي)

"ترجمہ :  حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  جب تم میں سے کسی آدمی کا لقمہ نیچے گر جائے تو اسے اٹھا کر گندگی وغیرہ صاف کر کے کھا لے اور اس لقمے کو شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ تولیہ رومال سے صاف نہ کرے جب تک کہ اپنی انگلیاں چاٹ نہ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کس کھانے میں ہے۔"

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"قال التوربشتي: إنما صار تركها للشيطان لأن فيه إضاعة نعمة الله والاستحقار بها من غير ما بأس، ثم إنه من أخلاق المتكبرين، والمانع عن تناول تلك اللقمة في الغالب هو الكبر، وذلك من عمل الشيطان. ( «فإذا فرغ فليلعق أصابعه فإنه لا يدري: في أي طعامه» ) : أي أجزائه (تكون) : بالتأنيث، وفي نسخة بالتذكير أي تحصل وتوجد (البركة) أي المفيدة للقناعة أو المعينة على الطاعة."

(كتاب الأطعمة، ج7، ص2695، دار الفكر)

و فیہ :

"(وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «إذا أكل أحدكم فلا يمسح يده حتى يلعقها») : بفتح الياء والعين أي يلحس أصابع يده (أو يلعقها) بضم الياء وكسر العين أي: يلعقها غيره ممن لم يقذره كالزوجة، والجارية والولد والخادم؟ لأنهم يتلذذون بذلك، وفي معناهم التلميذ، ومن يعتقد التبرك بلعقها، ذكره النووي."

(كتاب الأطعمة، ج7، ص2694، دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں