بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

كهانا ناملنے كی صورت ميں روزے كا حكم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں:

1۔ بین الاقوامی امدادی و رفاہی ادارے کی طرف سے ہماری تعیناتی جنگ سے متاثرہ ملک یوکرائن میں ہوئی ہے ،اس شہر میں مسلم آبادی ایک فیصد ہے،جہاں پر جنگ ہے۔ اس صورتحال میں رمضان  کے روزے کا کیا حکم ہے؟اکثر اوقات فضائی حملے کے پیش نظر کئی گھنٹوں کے لیے بنکر میں جانا پڑھتا ہے۔۔ شام سے لےکر صبح تک کرفیو نافذ ہوتا ہے۔ ہوٹل میں رہائش ہے جس کی وجہ سے مقررہ اوقات میں ہی کھانا دستیاب ہوتا ہے، ہوٹل میں دستیاب کھانے میں حلال کھانے کی مقدار کم ہوتی ہے اور سحری کے وقت دستیابی کرفیو کی وجہ سے ممکن نہیں، برائے مہربانی اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں سائل اگر  مسافر ہے ،تو اس کو  تو عام حالات میں بھی روزہ نہ  رکھنے کی گنجائش ہے ،اور مذکورہ حالات میں بدرجہ اولی سائل كو  روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہو گی ،لیکن جب مقیم ہو جائے  ،تو سفر کی وجہ سے جتنے روزے نہیں رکھے ،ان سب کی قضاء کرنا سائل پر  واجب ہو گی ۔

2:لیکن  اگر سائل  اسی ملک(یوکرائن)کا رہائشی باشندہ ہے یا وہاں پندرہ دن سے زیادہ ایام ایک جگہ قیام پزیر ہے لیکن جنگ کی وجہ سے حتمی طور پر قیام کا فیصلہ نہیں کرسکتے   تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو،روزے رکھنے کی بھر پور کوشش کرے ،اور شام کو جب  مقررہ وقت میں کھانا ،پانی وغیرہ دستیاب ہوتا ہے ،تو اس وقت سحری کے لیے بھی کھانے وغیرہ کا بندوبست کر لے تا کہ سحری کے وقت پریشانی نہ ہو ،اور اسی طرح روزہ کے سحروافطار  کے صحیح وقت  کے معلوم کرنے کے لیے گھڑی موبائل وغیرہ کا بندوبست کر لے ،اور اس کے مطابق  سحروافطار کرنے کا اہتمام کرے۔

البتہ اگر کھانے وغیرہ کو کچھ ملے ہی نہ اور روزہ رکھ  لے ،پھراگر   شدید کمزوری ہو گئی کہ ہلاکت کا خوف ہو ،تو پھر افطار کرنا سائل کے لیے جائز ہو گا ،لیکن بعد میں جب موقع ملے تو جلد از جلد جتنے روزے نہیں رکھے ان سب کی صرف  قضاء کرنا واجب ہو گی۔

قرآنِ کریم میں ہے :

"اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ."(سورة البقرة:184)

"ترجمه:تھوڑے دنوں روزہ رکھ لیا کرو ،پھر تم جو شخص بیمار ہو ،یا سفر میں ہو ،تو دوسرے ایام کا شمار رکھنا."

الجامع لاحکام القرآن للقرطبی  میں ہے :

"أو على سفر" اختلف العلماء في السفر الذي يجوز فيه الفطر والقصر، بعد إجماعهم على سفر الطاعة كالحج والجهاد، ويتصل بهذين سفر صلة الرحم وطلب المعاش الضروري. أما سفر التجارات والمباحات فمختلف فيه بالمنع والإجازة، والقول بالجواز أرجح."

(تفسيرسورة البقرة:تحت آية،184،ج :2،ص :272،ط :دارالكتب المصرية)

سنن  ترمذی میں ہے :

"عن عائشة، أن حمزة بن عمرو الأسلمي سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصوم في السفر، وكان ‌يسرد ‌الصوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن شئت فصم، وإن شئت فأفطر» وفي الباب عن أنس بن مالك، وأبي سعيد، وعبد الله بن مسعود، وعبد الله بن عمرو، وأبي الدرداء، وحمزة بن عمرو الأسلمي.: «حديث عائشة أن حمزة بن عمرو سأل النبي صلى الله عليه وسلم حديث حسن صحيح."

(كتاب الصوم ،باب ماجاء في الرخصة في الصوم،ج :3 ،ص:82 ط:مطبعة مصطفي الباني)

فتاوی شامی ميں هے :

"ويندب لمسافر الصوم) لآية: * (وإن تصوموا) * والخير بمعنى البر لا أفعل تفضيل (إن لم يضره)فإن شق عليه أو على رفيقه فالفطر أفضل لموافقته الجماعة (فإن ماتوا فيه) أي في ذلك العذر (فلا تجب) عليهم (الوصية بالفدية) لعدم إدراكهم عدة من ‌أيام ‌أخر (ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من ‌أيام ‌أخر."

(كتاب الصوم ،باب مادفسد الصوم ومالا يفسد،ج:2 ،ص:149،ط:سعيد)

جامع ترمذی میں ہے :

"من أفطَرَ يَوْمًا من رَمَضانَ، من غَيْرِ رُخْصَة وَلا مَرضٍ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ کُلِّهِ، وَ إنْ صَامهُ."

( أبواب الصوم عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب ماجاء في الإفطَارِ مُتَعَمِّدًا 2 : 93،ط:مطبع مصطفی البانی)

ترجمہ:   جس نے بغیر شرعی اجازت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا اسے عمر بھر کے روزے کفایت نہیں کر سکتے اگرچہ وہ عمر بھر روزے رکھے."

فتاوی شامی میں ہے:

"لايجوز أن يعمل عملاً يصل به إلى الضعف، فيخبز نصف النهار ويستريح الباقي، فإن قال: لا يكفيني، كذب بأقصر أيام الشتاء، فإن أجهد الحر نفسه بالعمل حتى مرض فأفطر ففي كفارته قولان، قنية.

''(قوله: لا يجوز إلخ) عزاه في البحر إلى القنية. وقال في التتارخانية: وفي الفتاوى سئل علي بن أحمد عن المحترف إذا كان يعلم أنه لو اشتغل بحرفته يلحقه مرض يبيح الفطر، وهو محتاج للنفقة هل يباح له الأكل قبل أن يمرض؟ فمنع من ذلك أشد المنع، وهكذا حكاه عن أستاذه الوبري، وفيها: سألت أبا حامد عن خباز يضعف في آخر النهار هل له أن يعمل هذا العمل؟ قال: لا ولكن يخبز نصف النهار ويستريح في الباقي، فإن قال: لا يكفيه، كذب بأيام الشتاء؛ فإنها أقصر فما يفعله اليوم اهـ ملخصاً.
(قوله: فإن أجهد الحر إلخ) قال في الوهبانية: فإن أجهد الإنسان بالشغل نفسه فأفطر في التكفير قولين سطروا، قال الشرنبلالي: صورته: صائم أتعب نفسه في عمل حتى أجهده العطش فأفطر لزمته الكفارة، وقيل: لا، وبه  أفتى البقالي."

  (کتاب الصوم، ج:2، ص،420 ، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المحترف المحتاج إلى نفقته علم أنه لو اشتغل بحرفته يلحقه ضرر مبيح للفطر يحرم عليه الفطر قبل أن يمرض، كذا في القنية."

(كتا ب الصوم ،الفصل الخامس  في الاَعذار التي  يبيح الاِفطار، ج:1،ص :208،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں