کیا میں اپنی زکات کی رقم کھانا کھلانے والی ویلفیر جماعت کے باکس میں ڈال سکتا ہوں؟
زکات کی ادائیگی درست ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ زکات کی رقم کسی مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دے دی جائے، دسترخوان پر زکات کی رقم سے کھانا لگاکر مستحقین کو کھلانے سے بھی زکات ادا نہیں ہوگی، کیوں کہ یہاں مستحق کو مالک بناکر اس کے حوالے کرنا نہیں پایا جارہا، بلکہ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانے کی اجازت دی جارہی ہے؛ لہٰذا اگر کوئی ادارہ اس بات کا اہتمام کرتا ہو کہ وہ زکات کی رقم یا زکاۃ کی رقم سے خریدا ہوا کھانا کسی مسلمان غیر ہاشمی (یعنی سید یا عباسی وغیرہ کے علاوہ)، مستحقِ زکات کو زکات کا مالک بناکر دے دیتے ہوں تو اس ادارے کو زکات دینا درست ہوگا، اور جو ادارہ اس کا اہتمام نہ کرتاہو اسے زکات دینا درست نہیں ہے۔ اور جہاں شبہ ہو وہاں زکات دینے کی بجائےخود مستحق تلاش کرکےاسے یا کسی مستند دینی ادارے کو زکات دی جائے۔نیز جس ادارے کے بکس میں زکات، خیرات و عطیات کا ایک ہی بکس ہو، اس کے مصارف پر اطمینان مشکل ہوگا، لہٰذا ایسی جگہ زکات بغیر تحقیق کے نہ دی جائے۔
مذکورہ ضابطے کی روشنی میں اداروں کا نظام دیکھ کر زکاۃ دینے کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کیا جاسکتاہے۔
زکات کے مستحق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں بنیادی ضرورت اور واجب الادا قرض و اخراجات منہا کرنے کے بعد استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206201434
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن