بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا کھاتے ہوئےڈائننگ ٹیبل سے اگر لقمہ گر جائے تو اس کو اٹھا کر کھانے کا حکم


سوال

 اگر ہم ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوں اور لقمہ زمین پر گر جاۓ تو اسے زمین سے اٹھا کر کھا لینا چاہیے؟

جواب

اگر کوئی لقمہ یا کھانا زمین پر گر جائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اسے اٹھا کر اس پر سے مٹی وغیرہ ہٹا کر اسے کھانا ممکن ہو تو اسے کھا لینا مستحب ہے، چاہے مٹی ہاتھ سے ہٹا لی جائے یا دھو لی جائے۔ اور اگر مٹی یا گندگی ہٹانا ممکن نہ ہو یا کسی ناپاک چیز پر وہ لقمہ یا کھانا گر گیا ہو تو اسے کھایا نہ جائے،  بلکہ کسی جانور کے آگے ڈال دیا جائے اور  اس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑا جائے ،جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ "اگر کوئی لقمہ کھاتے ہوئے زمین پر گر جائے تو اسے اٹھا کر اس سے ایذا  پہنچانے والی چیز کو صاف کر کے کھا لیا جائے اور شیطان کے لیے نہ چھوڑا جائے"۔

شرح النووی لصحیح مسلم میں ہے :

"واستحباب أكل اللقمة الساقطة بعد مسح أذى يصيبها هذا إذا لم تقع على موضع نجس فإن وقعت على موضع نجس تنجست ولابد من غسلها إن أمكن فإن تعذر أطعمها حيوانا ولايتركها للشيطان ومنها إثبات الشياطين وأنهم يأكلون وقد تقدم قريبا."

(كتاب الأشربة ،باب  استحباب لعق الأصابع واكل اللقمة ،ج:13 ،ص:204 ،ط:داراحياء التراث)

شرح ریاض الصالحین میں ہے :

"ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌دلنا على الخير فقال: (فليأخذها وليمط ما بها من أذى، وليأكلها، ولا يدعها للشيطان) خذها وأمط ما بها من أذى ـ من تراب أو عيدان أو غير ذلك ـ ثم كلها ولا تدعها للشيطان. والإنسان إذا فعل هذا امتثالاً لأمر النبي صلى الله عليه وسلم وتواضعاً لله عز وجل وحرماناً للشيطان من أكلها؛ حصل على هذه الفوائد الثلاثة: الامتثال لأمر النبي صلى الله عليه وسلم، والتواضع، وحرمان الشيطان من أكلها. هذه فوائد ثلاث، ومع ذلك فإن أكثر الناس إذا سقطت اللقمة على السفرة أو على سماط نظيف تركها، وهذا خلاف السنة.

وفي هذا الحديث من الفوائد: أنه لا ينبغي للإنسان أن يكل طعاماً فيه أذى، لأن نفسك عندك أمانة، لا تأكل شيئاً فيه أذى، من عيدان أو شوك أو ما أشبه ذلك، وعليه فإننا نذكر الذين يأكلون السمك أن يحتاطوا لأنفسهم، لأن السمك لها عظام دقيقة مثل الإبر، إذا لم يحترز الإنسان منها، فربما تخل إلى بطنه وتجرح معدته أو أمعاءه وهو لا يشعر، لهذا ينبغي للإنسان أن يراعي نفسه، وأن يكون لها أحسن راع، فصلوات الله وسلامه على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين."

(آداب عامة ،باب الأمر بالمحافظة علي السنة ،ج:2 ،ص:300 ،ط:دار الوطن للنشر)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144412100350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں