بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے وقت سرڈھانکنے کا حکم


سوال

کھانے پینے کے وقت درمیان میں اذان ہونے لگے اور کھانے والا ٹوپی پہنے بغیر کھانا کھا رہا ہو تو بہت سے لوگ ٹوپی پہننے پر اصرار کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت  واضح فرمائیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم سے ساری زندگی سر ڈھانپنا  ثابت ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا عام معمول عمامہ پہننے کا تھا، بساوقات سرمبارک ٹوپی سے ڈھکا ہوا ہوتا تھا، اس لیے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہننا سننِ زوائد میں سے ہے جس کا درجہ مستحب کا ہے، اور سر کا ڈھانپنا لباس کا حصہ ہے، اس لیے ہر وقت سر ڈھانپنا ضروری ہے، البتہ اذان یا کھانا کھاتے وقت اس کو ضروری سمجھنا  ٹھیک نہیں ہے، اگر آدمی کا  اذان کے وقت یا کھانا کھاتے وقت سر نہ ڈھانپا ہوا ہو تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، تاہم اذان کے وقت دونوں جہانوں کے شاہنشاہ کی طرف سے منادی آواز لگا رہا ہوتا ہے تو اللہ جلہ جلالہ کی طرف سے ندا دی جا رہی ہو اور مسلمان کی حالت میں تبدیلی نہ آئے یہ مناسب نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اذان کے وقت  لایعنی باتوں اور لایعنی کا موں کو ترک کر کے اللہ تعالی کی بڑائی اور عظمت کے ساتھ اذان کو سننا جائے اور اس کا جواب دیا جائے، اگر سر ننگا ہو تو اس کو  ڈھانپ لینا چاہیے۔

غذاء الألباب في شرح منظومة الآداب (السفاريني)  میں ہے:

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس العمامة فوق القلنسوة، ويلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة، وكان إذا اعتم أرخى طرف عمامته بين كتفيه كما في حديث عمرو بن حريث. وفي حديث جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «دخل مكة وعليه عمامة سوداء."

(‌‌مطلب: صفة عمامته عليه السلام، ج:2، ص:246،الناشر : مؤسسة قرطبة - مصر)

"سبل الهدى والرشاد"میں ہے:

"وروى أيضا عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس القلانس البيض، والمزروات، وذوات الآذان.

تنبيهان الأول: قال في الإحياء: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس القلانس تحت العمامة، وبغير عمامة، وربما نزع قلنسوة من رأسه، فيجعلها سترة بين يديه، ثم يصلي إليها، قال في زاد المعاد: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة.

الثاني: في بيان غريب ما سبق: القلنسوة والقلنسية إذا فتحت ضممت السين، وإذا ضممت كسرتها، تلبس في الرأس."

(ج:7، ص:285، ط:دارالكتب العلمية)

جمع الوسائل میں ہے:

"واعلم أنه صلى الله عليه وسلم كانت له عمامة تسمى السحاب ، وكان يلبس تحتها القلانس جمع قلنسوة ، وهي غشاء مبطن يستتر به الرأس،  قاله الفراء ، وقال غيره هي التي تسميها العامة الشاشية والعرقية ، وروى الطبراني وأبو الشيخ والبيهقي في الشعب من حديث ابن عمر رضي الله عنهما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس قلنسوة ذات آذان يلبسها في السفر ، وربما وضعها بين يديه إذا صلى."

(باب ما جاء في عمامة رسول الله صلى الله عليه وسلم،ج:1،ص:166،ط:المطبعة الشرفية  مصر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں  ہے:

'‌'والأكل ‌مكشوف ‌الرأس ‌والأكل ‌يوم ‌الأضحى ‌قبل ‌الصلاة ‌فيه ‌روايتان، ‌والمختار ‌أنه ‌لا ‌يكره.''

(كتاب الكراهية،الأكل والشرب متكئا أو واضعا شماله على يمينه أو مستندا،ج:8،ص:210،ط:دار الكتاب الإسلامي)

اس بارے  میں خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ کا   ایک خواب مذکور ہے ، واضح رہے کہ   خواب حجت نہیں ہوتے، بلکہ مبشرات میں سے ہوتے ہیں،  چناں چہ "نماز کے اسرار و رموز"نامی کتاب  میں ہے:

"زبیده خاتون ایک نیک ملکہ تھی ۔ اس نے نہر زبیدہ بنوا کر مخلوقِ  خدا کو بہت فائدہ پہنچایا ۔ اپنی وفات کے بعد وہ کسی کو خواب میں نظر آئی ۔ اس نے پوچھا کہ زبیدہ خاتون ! آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ زبیدہ خاتون نے جواب دیا کہ اللہ رب العزت نے بخشش فرمادی ۔ خواب دیکھنے والے نے کہا کہ آپ نے نہر زبیدہ بنوا کر مخلوق کو فائدہ پہنچایا ، آپ کی بخشش تو ہونی ہی تھی ۔ زبیدہ خاتون نے کہا نہیں نہیں۔ جب نہر زبیدہ والا عمل پیش ہوا تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ کام تو تم نے خزانے کے پیسوں سے کروایا۔ اگر خزانہ نہ ہوتا تو نہر بھی نہ بنتی۔  مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے میرے  لیے کیا عمل کیا؟  زبیدہ نے کہا کہ میں تو گھبرا گئی کہ اب کیا بنے گا۔ مگر اللہ رب العزت نے مجھ پر مہربانی فرمائی۔  مجھے کہا گیا کہ تمہارا ایک عمل ہمیں پسند آ گیا۔ ایک مرتبہ تم بھوک کی حالت میں دستر خوان پر بیٹی کھانا کھا رہی تھی کہ اتنے میں اللہ اکبر کے الفاظ سے اذان کی آواز سنائی دی۔ تمہارے ہاتھ میں لقمہ تھا اور سر سے دوپٹہ سرکا ہوا تھا۔ تم نے لقمے کو واپس رکھا، پہلے  دوپٹے کو ٹھیک کیا، پھر لقمہ کھایا ۔ تم نے لقمہ کھانے میں تاخیر  میرے نام کے ادب کی وجہ سے کی،  چلو ہم نے تمہاری مغفرت فرمادی"۔

(باب نمبر:4،اذان کا جواب، صفحہ نمبر:65، مکتبۃ الفقیر فیصل آباد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں