بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خانہ کعبہ کو غسل دینا بدعت نہیں ہے


سوال

کیا خانہ کعبہ کو جو غسل دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ بدعت کہلائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ  جوکام قرونِ ثلاثہ مشہود لہا بالخیر میں نہ ہوا ہو اور نہ اس کی اصل پائی جاتی ہو، اس کو دین کا کام  سمجھ کر کرناشرعی اصطلاح میں بدعت کہلاتا ہے،جبکہ خانہ کعبہ کو صفائی کی غرض سے غسل دینا یعنی دھوکر صاف کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے،بلکہ عام مساجد اور خاص کر خانہ کعبہ کوطواف،قیام،رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنے کا حکم ہے،اس لحاظ سے خانہ کعبہ کو صفائی کی غرض سے  دھونا/غسل دینا   اجر کا کام ہے۔اس کابدعت سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ شریعت کے حکم کے مطابق عمل کرنا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ" (سورة الحج:26)

 ترجمہ:اور جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خانہ کعبہ کی جگہ بتلا دی (اور حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا  اور میرے ساتھ اس گھر کو طواف کرنے والوں کے اور (نماز میں) قیام و رکوع و سجدہ کرنے والوں کے واسطے پاک رکھنا۔ (بیان القرآن)

"وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى وَ عَهِدْنَا اِلٰى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ" (سورة البقرة:125)

ترجمہ:اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ ) جس وقت ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا معبد اور (مقام) امن  (ہمیشہ سے) مقرر رکھا اور مقام  ابراہیم کو (کبھی کبھی) نماز پڑھنے کی جگہ بنالیا کرو اور ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام ) کی طرف حکم بھیجا کہ میرے (اس) گھر کو خوب پاک رکھا کرو بیرونی اور مقامی لوگوں (کی عبادت) کے واسطے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے ۔ (از بیان القرآن )

تفسیر القرطبی میں ہے:

"الثالثة- لما قال الله تعالى" ‌أن ‌طهرا بيتي" دخل فيه بالمعنى جميع بيوته تعالى، فيكون حكمها حكمه في التطهير والنظافة. وإنما خص الكعبة بالذكر لأنه لم يكن هناك غيرها، أو لكونها أعظم حرمة، والأول أظهر، والله أعلم."

(سورۃ البقرہ ،ج2،ص114،ط؛دار الکتب المصریہ)

اخبار مکۃ (ل۔محمد بن اسحاق الفاکھی) میں ہے:

"حدثني محمد بن علي المروزي، حدثنا عبيد الله بن موسى، حدثنا موسى بن عبيدة، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا فرقي على ظهر الكعبة فأذن بالصلاة، وقام المسلمون فتجرروا في الأزر وأخذوا الدلاء، وارتجزوا على زمزم ‌فغسلوا ‌الكعبة ظهرها وباطنها، فلم يدعوا أثرا من آثار المشركين إلا محوه وغسلوه."

(ذكرأذان بلال بن رباح على الكعبة،ج5،ص221،ط؛مکتبۃ الاسدی)

النبراس فی شرح شرح العقائد میں ہے:

"وكل حدث في الدين بعد زمن الصحابة بلا حجة شرعية."

(ص15،ط؛امدادیہ )

کفایت المفتی میں ہے:

"بدعت وہ کام ہے جو قرونِ ثلاثہ مشہود لہا بالخیر میں نہ ہوا ہو اور نہ اس کی اصل پائی جاتی ہو،اور اس کو دین کا کام  سمجھ کر  کیا جائے یا چھوڑا جائے تو یہ کرنا یا اس کے چھوڑنے کو دین کا کام سمجھ کر چھوڑنا بدعت ہے۔"

(کتاب العقائد،ک1،ص166،ط؛دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"جس چیز پر شریعت نے ثواب نہ بتایا ہو اس کو ثواب سمجھ کر کرنا بدعت ہے،چاہے وہ چیز کوئی فعل ہو یا کسی فعل کی ہیئت ہو یازمان مکان یا عدد وغیرہ کی کوئی قید ہو۔"

(باب البدعات والرسوم،ج3،ص23،ط؛فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100980

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں