کس صورت میں عدت لازم نہیں ہے؟
جب نکاح ہوجائے اور رخصتی (صحبت/ خلوتِ صحیحہ) سے پہلے طلاق ہوجائے تو اس صورت میں شرعاً عدت لازم نہیں ہوتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وسبب وجوبها) عقد (النكاح المتأكد بالتسليم وما جرى مجراه) من موت، أو خلوة أي صحيحة.
وفي الرد: (قوله: أي صحيحة) فيه نظر، فإن الذي تقدم في باب المهر أن المذهب وجوب العدة للخلوة صحيحة أو فاسدة."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج: 3، ص: 504، ط: سعید)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
"وکل خلوۃ لایمکن معها الوطئ کخلوۃ المریض إلی فلا عدۃ، وفي الخانیة: وکذا لو طلقها قبل خلوة."
(كتاب الطلاق، الفصل الثامن والعشرون: في العدة، ج: 5، ص: 232، رقم: 7734، ط: رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409101367
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن