بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوتِ صحیحہ سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں عدت کا حکم


سوال

ایک لڑکی کا 4سال پہلے نکاح ہوا ،  رخصتی اور شادی نہیں ہوئی ، اب اس کے شوہر نے تین طلاق ایک جملے میں دے دی ،اب لڑکی کےوالدین اپنی مذکورہ لڑکی کا نکاح دوسرے لڑکے سے کروانا چاہتے ہے،تو لڑکی کے امی ابو کاپوچھنا ہے کہ اس صورت میں  لڑکی پرعدت لازم ہے یا نہیں ؟

تنقیح

سوال میں چندوضاحت طلب امور ہیں:

1-کیامیاں بیوی کونکاح کےبعدکسی قسم کی رکاوٹ کےبغیرتنہائی   میں ملاقات کاموقع ملاتھا؟

2-شوہرنے کن الفاظ سےطلاق دی تھی؟

جوابِ تنقیح:

1-نہیں، نکاح کے بعد میاں بیوی دونوں نہیں ملے تھے۔

2-میاں کی طرف سے با قاعدہ طلاق کے پیپر جاری کر دیے گئے ہیں اور طلاق کےالفاظ  یہ تھے"3 طلاق ہے مطلق میری طرف سے"۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح کے بعد رخصتی اور خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) سے پہلے  مذکورہ لڑکی کے شوہرکےیہ"3 طلاق ہے مطلق میری طرف سے"کہنےسے مذکورہ لڑکی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، نکاح ختم ہوچکاہے،نہ رجوع کی گنجائش ہےاورنہ نکاح کرنے کی، نیزمطلقہ پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن ‌فرق ‌الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق."

(کتاب الطلاق، الفصل الرابع فی الطلاق قبل الدخول، 373/1، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسبب وجوبها) عقد (‌النكاح ‌المتأكد ‌بالتسليم وما جرى مجراه) من موت، أو خلوة أي صحيحة، .... وشرطها الفرقة."

(كتاب الطلاق، باب العدت،3/ 504، ط: سعيد)

وفيها أيضا:

" (والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء  ... (كالوطء)  ....... (في ثبوت النسب)... (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها.

 (قوله: والعدة) وجوبها من أحكام الخلوة سواء كانت صحيحة أم لا ط: أي إذا كانت فيه نكاح صحيح، أما الفاسد فتجب فيه العدة بالوطء كما سيأتي.''

(كتاب النكاح، باب المهر، 3/ 114-119، ط: سعید)

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠]...وإنما تنتهي الحرمة وتحل للزوج الأول بشرائط منها النكاح...ومنها الدخول من الزوج الثاني، فلا تحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء."

(کتاب الطلاق، فصل:وأماحکم الطلاق البائن، 3 /189-187، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں