بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوتِ صحیحہ کی تعریف اورشرائط


سوال

نکاح کے فورا بعد ناکح اور منکوحہ  کچھ دیر کےلیے ایک کمرے میں چلے گۓ، جہاں پر ایک چھوٹا  بچہ بھی سویا ہوا تھا، اس کے بعد تھوڑ ی دیر بوس کنار ہوا، اور کچھ ہی دیر میں منکوحہ کی ماں اور بہن بھی کمرے میں داخل ہوئیں، اور یہ   سب کچھ رخصتی سے پہلے ہوا ،اس کے کچھ ہی دنوں بعد طلاق واقع ہوگئی، کیا یہ خلوت صحیحہ ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ خلوتِ  صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ایسی جگہ میں تنہا جمع ہوں جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو، اگرچہ ایسی تنہائی میں  ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو، اور یہ ملاقات اگر کسی کمرہ میں ہوئی ہو تو اس کمرہ کا دروازہ کنڈی وغیرہ  بند ہو، مقفل ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃنکاح کے بعد میاں بیوی کے درمیان کمرے میں تنہائی کے ساتھ ملاقات اور بوس وکنارہواہے، جب کہ کمرہ کا دروازہ  کنڈی وغیرہ  بند تھا ،کھلا ہوا نہیں تھا، تو ایسی صورت میں خلوتِ صحیحۃ ثابت ہوگئی ،لہذا چھوٹے بچے(ناسمجھ )بچے کی موجودگی یا بعد میں بیوی کی والدہ اور بہن کاکمرے میں آنے سے خلوتِ صحیحہ پر کوئی فرق نہیں پڑےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( والخلوة ) مبتدأ خبره قوله الآتي: كالوطء ( بلا مانع حسي ) كمرض لأحدهما يمنع الوطء ( وطبعي ) كوجودثالث عاقل، ذكره ابن الكمال وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل ( وشرعي ) كإحرام لفرض أو نفل."

(کتاب النکاح،باب المہر،مطلب فی حط المہر والبراءمنہ،ج:3،ص:114، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والخلوةالصحیحةأن يجتمعا في مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء حسا أوشرعا اوطبعا، كذا فی فتاوى قاضي خان".

(کتاب النکاح،الباب السابع فی المہر،الفصل الثانی فیما یتاکدبہ المہر،ج:1،ص:403،ط:المطبعۃ الکبری الامیریہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں