بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوت صحیحہ کے بعد رخصتی سے پہلے طلاق ہونے کی صورت میں مہر اور عدت کا حکم


سوال

 میرے ایک دوست کا گزشتہ کچھ مہینوں پہلے صرف نکاح ہوا اور رخصتی نہیں ہوئی اور نکاح میں لڑکے نے لڑکی کو مہر کی رقم مکمل نہیں دی بلکہ آدھی رقم دی تھی،  لڑکے اور لڑکی کی ملاقات ہوئی تو ملاقات کے دوران لڑکے نے لڑکی کو گلے وغیرہ لگایا اور بھی بہت کچھ کیا، لیکن ان دونوں کے درمیان ملاپ نہیں ہوا بس گلے وغیرہ ملے، لیکن اب ان کا رشتہ جو تھا وہ ختم ہو گیا ہے، تو آیا لڑکے نے جو آدھا مہر لڑکی کو دیا تھا تو کیا لڑکے کو مہر کی رقم پوری ادا کرنی ہوگی یا نہیں؟ اور لڑکی عدت میں بیٹھے گی یا نہیں؟ 

جواب

اگر رخصتی سے پہلے خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) کے بعد طلاق ہوجائے تو اس صورت میں مرد پر مکمل مہر ادا کرنا واجب ہوتا ہے اور عورت پر تین ماہواری تک عدت گزارنا واجب ہوتا ، چاہے زوجین کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔  لہٰذا صورت مسئولہ میں چونکہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان تنہائی میں کسی رکاوٹ کے بغیر ملاقات ہوچکی ہے اس لئے لڑکے پر باقی آدھا مہر بھی ادا کرنا لازم ہے اور لڑکی پر تین ماہواری تک عدت میں بیٹھنا بھی لازم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 114۔۔۔119):

" (والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء  ... (كالوطء)  ۔۔۔۔۔۔۔۔ (في ثبوت النسب) ولو من المجبوب (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها.

(قوله وفي تأكد المهر) أي في خلوة النكاح الصحيح ۔۔۔۔۔۔۔ (قوله والعدة) وجوبها من أحكام الخلوة سواء كانت صحيحة أم لا ط: أي إذا كانت فيه نكاح صحيح، أما الفاسد فتجب فيه العدة بالوطء كما سيأتي''.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200545

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں