بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوتِ صحیحہ کے بعد ازدواجی تعلق قائم ہوئے بغیر تین طلاق دینے کی صورت میں مہر، عدت اور دوبارہ ساتھ رہنے کا حکم


سوال

ہمارے ایک رشتے دار بھانجے کا نکاح ہوا پھر رخصتی ہونے کے بعد  کمرے میں ایک  مرتبہ بھی لڑکی نے اسے اپنے قریب نہیں آنے دیا، لڑکی نے عدالت سے خلع لے لی جس پر بھانجے نے بھی دستخط کیے،( خلع نامہ پر تین طلاقیں لکھی ہوئی تھی)۔ خلع کے ایک ماہ بعد لڑکی کے طلاق کے مطالبوں کی وجہ سے لڑکے نے زبانی طور پر طلاق دینے کے الفاظ بھی تین مرتبہ دہرائے، اب لڑکی کے تایا وغیرہ چاہتے ہیں کہ دونوں ساتھ رہیں، اور ہم آپ سے شرعی رہنمائی چاہتے ہیں۔

۱۔ ان دونوں کے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

۲۔ کیا دونوں اب ساتھ رہ سکتے ہیں؟

۳۔  کیا لڑکی عدت گزارے گی؟

۴۔ کیا لڑکی کو حق مہر ملے گا؟

جواب

(1،2)صورتِ مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ تفصیل کی رُو سے شوہر نے تین مرتبہ طلاق دےدی تو آپ کے بھانجے کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،  دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ واقع ہوچکی ہے، اب رجوع کرنا بھی جائز نہیں ہے اور دوبارہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے، لڑکی پر عدت (تین ماہواری) گزارنا لازم ہے، عدت ختم ہوجانے ک بعد لڑکی  کسی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  اگر  لڑکی عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرے، پھر اس سے ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد اس دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ از خود  طلاق دے دے  یا بیوی  اس سے طلاق لےلے تو پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارنے کے بعد اس لڑکی کاپہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔

(3،4)چوں کہ میاں بیوی کے درمیان خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) ہوچکی ہے اس لیے لڑکی پر عدت (تین ماہواری) گزارنا بھی لازم ہے اور اگر طلاق دیتے وقت مہر کی معافی کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا تو  لڑکی کو مکمل حق مہر بھی ملے گا، چاہے زوجین کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہوا ہو یا نہ ہوا ہو،لیکن اگر لڑکی نے خلع کے کاغذات میں مہر کے عوض طلا ق کا مطالبہ کیا ہو تو  لڑکی مہر کی حق دار نہیں ہوگی ۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها، وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".

(الفتاوى الهندية، کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ، ج: 1/ 472، ط: دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً ...... وإنما تنتهي الحرمة وتحل للزوج الأول بشرائط منها النكاح، وهو أن تنكح زوجا غيره لقوله تعالى {حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] نفى الحل، وحد النفي إلى غاية التزوج بزوج آخر، والحكم الممدود إلى غاية لا ينتهي قبل وجود الغاية، فلا تنتهي الحرمة قبل التزوج، فلا يحل للزوج الأول قبله ضرورة ...... ومنها أن يكون النكاح الثاني صحيحا ....... ومنها الدخول من الزوج الثاني، فلا تحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء".

(كتاب الطلاق،فالرجعة،صل في حكم الطلاق البائن،3/ 187،ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء  ... (كالوطء) فيما يجيء ...... في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها ...... وكذا في وقوع طلاق بائن آخر على المختار".

(قوله وفي تأكد المهر) أي في خلوة النكاح الصحيح، أما الفاسد فيجب فيه مهر المثل بالوطء لا بالخلوة كما سيذكره المصنف في هذا الباب لحرمة الوطء فيه، فكان كالخلوة بالحائض (قوله والعدة) وجوبها من أحكام الخلوة سواء كانت صحيحة أم لا ط: أي إذا كانت فيه نكاح صحيح، أما الفاسد فتجب فيه العدة بالوطء كما سيأتي".

(كتاب النكاح، باب المهر،3/ 114، 117، 118،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں