ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہیں، شادی کو ایک ماہ ہوا ہے اور دس لاکھ روپے مہر عند الطلب تھا، شوہر کا کہنا ہے کہ میں آدھے مہر کا ذمہ دار ہوں، لیکن اس کے گھر والے بھی پورا مہر دینے کو کہتے ہیں، وہ کہتا ہے فتوی لاؤ، اُس سے مسجد کے امام صاحب نے بھی پوچھا اور لڑکی کے والد نے بھی اور خود بھی خلوتِ صحیحہ ہونے کا اقرار کرتا ہے، لیکن مہر پورا کرنے کے لیے نہیں مانتا، شرعی طور پر اس شخص کے ذمہ کتنا مہر دینا واجب ہے؟
صورت مسئولہ میں جب شادی/رخصتی اور خلوت صحیحہ (کامل خلوت)کے بعد طلاق ہوئی ہے اور مذکورہ شخص خلوتِ صحیحہ کا اقرار بھی کررہا ہے تو بیوی پورا حقِ مہر لینے کی حق دار ہے ، لہٰذا مذکورہ شخص کے ذمے مکمل مہر (دس لاکھ روپے) اپنی مطلقہ کو ادا کرنا لازم ہے،جب تک شوہر بیوی کو مہر ادا نہیں کر دیتا یا بیوی شوہر کو معاف نہیں کردیتی یہ شوہر کے ذمہ قرض رہے گا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق".
(الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ج:1 ص:303 ط:رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال(وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل".
(کتاب النکاح، باب المهر، مطلب فی حط المهر والابراء منه، ج:3، ص:114، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101994
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن