بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوت اور رخصتی سے پہلے طلاق کی صورت میں عدت اور پیدا ہونے والے بچہ کے ثبوتِ نسب کا حکم


سوال

 ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا، ابھی خلوت اوررخصتی نہیں ہوئی تھی کہ وہ حاملہ ہو گئی، اب شوہر نے اسے طلاق دےدی تو اس پر عدت لازم ہوگی یا نہیں؟ اور اگر ہوگی تو کب تک ؟اور ولادت کے بعد بچے کے نسب کا ثبوت کس سے ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جو بیوی کو حمل کی حالت میں طلاق دی ہے تو بیوی کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے اور  مذکورہ صورت میں ہونے والے بچے کے نسب کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر مذکورہ بچے کی پیدائش کے وقت نکاح کے چھ مہینے گزر چکے ہوں تو اس کا نسب مذکورہ طلاق دینے والے شخص سے ثابت ہوگا اور اگر یہ بچہ نکاح کے چھ مہینے پورا ہونے سے پہلے پیدا ہوجائے تو اس صورت میں اس بچہ کا نسب اس مذکورہ شخص سے ثابت نہیں ہوگا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}." (البقرة: 230)

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے سے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔" (بیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسيجيء في الاستيلاد أن الفراش على أربع مراتب وقد اكتفوا بقيام الفراش بلا دخول كتزوج المغربي بمشرقية بينهما سنة فولدت لستة أشهر منذ تزوجها لتصوره كرامة، أو استخداما فتح.

(قوله: بلا دخول) المراد نفيه ظاهرا وإلا فلا بد من تصوره وإمكانه ولذا لم يثبتوا النسب من زوجة الطفل ولا ممن ولدت لأقل من ستة أشهر على ما مر تفصيله وعبارة الفتح: والحق أن التصور شرط، ولذا لو جاءت امرأة الصبي بولد لا يثبت نسبه، والتصور ثابت في المغربية لثبوت كرامات الأولياء والاستخدامات، فيكون صاحب خطوة، أو جنيا. اهـ."

(كتاب الطلاق،باب العدة،فصل في ثبوت النسب،550/3،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(كما) يثبت بلا دعوة احتياطا (في مبتوتة جاءت به لأقل منهما) من وقت الطلاق لجواز وجوده وقته ولم تقر بمضيها كما مر (ولو لتمامها لا) يثبت النسب.

(قوله: كما في مبتوتة) يشمل البت بالواحدة والثلاث، والحرة، والأمة بشرط أن لا يملكها كما يأتي، ويشمل ما إذا تزوجها في العدة، أو لا بحر وسيأتي بيانه في الفروع. ونقل ط عن الحموي عن البرجندي اشتراط كون المبتوتة مدخولا بها، فلو غير مدخول بها فولدت لستة أشهر، أو أكثر من وقت الفرقة لا يثبت، وإن لأقل منها ثبت: أي إذا كان من وقت العقد ستة أشهر فأكثر. اهـ.

وفي البحر: واعلم أن شرط ثبوت النسب فيما ذكر من ولد المطلقة الرجعية والبائنة مقيد بما سيأتي من الشهادة بالولادة أو اعتراف من الزوج بالحبل، أو حبل ظاهر بحر."

(كتاب الطلاق،باب العدة ،فصل في ثبوت النسب،541/3،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان. .وسواء كانت عن طلاق أو وفاة أو متاركة أو وطء بشبهة كذا في النهر الفائق. وسواء كان الحمل ثابت النسب أم لا ويتصور ذلك فيمن تزوج حاملا بالزنا كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الطلاق،الباب الثالث عشر في العدة،528/1،ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں