بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

(خالفوا المشرکین ... ) والی حدیث کی روشنی میں داڑھی رکھنے کا حکم


سوال

1۔بعض حضرات کی طرف سے داڑھی کے بارے میں یہ دلیل پیش  کرنے کو ملتی ہے  " خالفوا المشركين "والی حدیث علت کے ساتھ معلول ہے ،اور قاعدہ کی رو سے علت نہ پائی جائے تومعلول بھی نہیں پایا جاتا ،لہذا جب مشرکین کے بڑوں نے داڑھیاں رکھنا شروع کر دیں تو ہمارے لئے داڑھی نہ  رکھنے کی صورت میں ہی مخالفت ممکن ہو گی ،نیز قراء مصر کا داڑھی نہ رکھنا، اور ائمہ حرمین کا داڑھیوں کو چھوٹا کروانا، کیا کسی دلیل کی بنیاد پر ہے، اور ان کے پیچھے نماز کا کیاحکم ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

2۔خطباءکا" أما بعد" کےبعد" قال الله تعالى"کے بعد تعوذ پڑھ کرآیت پڑھنا کیسا ہے ؟کیونکہ اس صورت میں یہ معنی بھی ممکن بنتا ہے کہ اللہ تعالی نے (نعوذ باللہ)  آیت سے پہلے تعوذ کو بھی ذکر کیا ہے ۔ 

3۔ آج کل کی معروف آذانیں شریعت کی  رو سے کیسی ہیں جن میں " الله أكبر"  میں لفظ" الله "  کا کھڑا زبر  ، اور" حي على الصلوة " ، نیز " حي على الفلاح " کے کھڑا زبر  اور الف کو  اتنا لمبا کیا جاتاہے کہ اس کی  مقدار سات،یا  آٹھ الف کے برابر بن جاتی ہے،  اور اس کے دوران آواز کو ہلایا بھی جاتا ہے، اور اسی طرح کی آذان  حرمین شریفین میں بھی سننے کو ملتی ہے، کیا کسی تجویدی قاعدے میں ایسی صورت کا امکان  موجود ہے؟ بعض اہل علم کو ایسی آذان دینے سے منع کرتے ہوئے دیکھا ،کہ اس میں کراہت پائی جاتی ہے، وضاحت فرمائیں۔

4۔ ہمارے ہاں رمضان میں عورتوں کو جمع کرنے کی ایک صورت یہ بنائی جاتی ہے کہ کسی اہل علم عورت کی نگرانی میں محلے بھر کی عورتیں ان کے گھر تراویح کے لیے آخری عشرے کے تین چار دن تشریف لے جاتی ہیں، وہاں باری باری ایک ایک حافظہ آخر ی پارے پڑھتی رہتی ہے بغیر کسی مقتدی کے ، اور باقی عورتوں کو اختیار ہوتا ہے کچھ ان کا قرآن سننے، کچھ اپنا قرآن پڑھنے، اور کچھ اپنی تراویح پڑھنے ،اور کچھ ذکر واذکار  میں مشغول ہوجاتی ہیں، اور یہ کام خوب نظم و ضبط کے ساتھ ،بغیر کسی شور وشغب کے کیا جاتا ہے، پھر چوتھے دن ختم قرآن کے بعد عورتوں کے لیے ایک اصلاحی مجلس کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں کسی بڑی عالمہ سے بیان کروا کر دعاء کروائی جاتی ہے، پھر اس کے بعد حسبِ توفیق مجمع کا اکرام کرکے ان کو واپس گھروں کو روانہ کردیا جاتا ہے ، ایسی مجالس میں شرکت کرنے اور ان کو فروغ دینے کے بارے میں وضاحت فرمائیں۔

5۔ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں جیسے ظہر، مغرب، عشاء، ان کی فرض نماز پڑھنے  یا پڑھانے کے بعد آدمی تسبیحات یا دعاء وغیرہ کرنے کی وجہ سے سنت پڑھنے میں کچھ تاخیر کردے تو کیسا ہے؟ بعض جگہ میں یہ پڑھاہے  کہ " اللهم انت السلام " والی دعاء سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے ، مسنون طریقہ کیا ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ داڑھی رکھنا تمام انبیاء کرام علیہم السلام  کی سنت ہے ، داڑھی منڈوانا فطرت کے خلاف ہے، شریعت میں داڑھی رکھنے کا حکم ہے،  اور حدیث کے اس قطعے" خالفوا المشركين " کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو، اور ان کی مخالفت میں داڑھیاں بڑی کرو (ایک مشت تک)، اور مونچھیں کم کرو، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مشرکین داڑھیاں کاٹتے تھے، یہ ان کے دین کا حصہ تھا،اگرچہ  اس وقت بھی بعض مشرکین (اپنے دین پر عمل نہ کرتے ہوئے  ان) کی  داڑھیاں ہوتی تھیں،  تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےان کی  مخالفت کرنے کا امر کیا، حدیث کے اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے  کہ آج کے دور میں اگر وہ  اپنی داڑھیاں بڑی کررہے ہیں  تو ہم ان کی مخالفت  میں  حرام کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی داڑھیاں منڈوانا، یا ایک مشت سے کم کرنا شروع کردیں،بلکہ مخالفت سے مراد ان کے دین کی مخالفت ہے۔

اس کے علاوہ بھی داڑھی رکھنا شریعت میں ایک مستقل حکم ہے، یعنی صرف مشرکین کی مخالفت داڑھی رکھنے کی علت اور بنیاد نہیں ہے، اس پر ذخیرہ احادیث  میں بہت سی روایات موجود ہیں ، اس پر تمام صحابہ کرام اور تمام امت کا تعامل واجماع  دلیل ہے ،نیز تمام ائمہ کا اجماع ہے کہ داڑھی ایک مشت سے کم کرنا ناجائز اور حرام ہے، البتہ ایک مشت سے زائد بال کاٹنے کا حکم شریعت دیتی ہے ، لہذا داڑھی کامونڈنا یا ایک مشت سے کم کرنا ا حرام  اور گناہ کبیرہ ہے ،اللہ تعالیٰ کی رحمت سےدوری(لعنت)کاسبب ہے، نیز داڑھی کاٹنے میں  عورتوں، کفار، مخنثین اور ہیجڑوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے،  اور ان سب  کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے پر شریعت نے سختی سے منع کیا ہے، باقی قراء مصر اگر داڑھیاں منڈواتے ہیں اور  ائمہ حرم اگر چھوٹی کرتے ہیں تو ان کا عمل دلیل نہیں۔

چناں چہ حدیث شریف میں ہے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : 

"من فطرة الإسلام ... وأخذ الشارب، وإعفاء اللحى، ‌فإن ‌المجوس ‌تعفي ‌شواربها، ‌وتحفي ‌لحاها، فخالفوهم، خذوا شواربكم وأعفوا لحاكم."

"ترجمہ: حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اسلام کی فطرت سے مونچھوں کا لینا ہے (کٹوانا) اور داڑھی کا بڑھانا ہے، اس لیے کہ مجوسی لوگ اپنی مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھی کو کٹواتے ہیں لہذا ان کی مخالفت کرو،  مونچھوں کو کٹوایاکرواور داڑھی کو بڑھایا کرو۔"

(شرح سنن ابن ماجه لمغلطائي، كتاب الطهارة، باب الفطرة، 1/ 122 ، ط: دار ابن عباس)

حضرت مولانا زکریاؒ حدیث بالا  کی تشریح میں فرماتے ہیں :

"فائدہ۔: اس حدیث پاک سے ان لوگوں کا خیال بھی باطل ہو گیا جو یوں کہتے ہیں کہ عرب میں چونکہ دستور داڑھی رکھنے کا تھا اس لئے عادةً حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ وسلم رکھوایا کرتے تھے، کہ اس حدیث پاک میں تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم صادر فرما دیا کہ داڑھی کا کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا مجوسیوں کا شعار ہے، اس فعل میں مجوسیوں کی مشابہت ہے اور حدیث مشہور میں : "من تشبّه بقوم فهو منهم " جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں شمار ہے ،  اس سے پہلی حدیث میں داڑھی کا بڑھانا سارے انبیاء علیہم الصلواة والسلام کا طریقہ بتایا گیا ہے، اور حدیث پاک میں داڑھی کا کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا مشرکین اور مجوس کا شعار بتایا گیا ہے، کس قدر سخت وعید ہے، اللہ تعالیٰ ہی محفوظ فرمائے، حضرت  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو داڑھیوں کو بڑھایا کرو، اور مونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کیا کرو ،اور بھی متعدد احادیث میں یہ مضمون کثرت سے نقل کیا گیا ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو  داڑھی کو بڑھایا کرو اور  مونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کیا کر و، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ داڑھی کو بڑھاؤ او مونچھوں کوکٹواؤ،  اور اس میں یہود و نصاری کے مشابہت اختیار نہ کرو ۔

ہمارے زمانہ میں نصاری کی مشابہت اور ان سے تقرب حاصل کرنے کے واسطے یہ مصیبت شروع ہوئی تھی، ورنہ مجھے خوب یا د ہے کہ میر ے بچپن میں کافروں کے بڑے آدمی بھی داڑھی رکھا کرتے تھے، مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت نقل کی ہے کہ: ایک مجوسی حضور اقدس صل للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس نے داڑھی منڈا  رکھی تھی اور  مونچھیں بڑھا رکھی تھیں، تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے کہا یہ کیا بنا رکھا ہے؟ اس نے کہا یہ ہمارا دین ہے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے دین میں یہ ہے کہ مونچھوں کو کٹوا دیں، اور داڑھی کو بڑھائیں  ۔"

(داڑھی کا وجوب،مؤلف: شیخ الحدیث صاحبؒ ،  ص: 7-8، ط: کتب خانہ مظہری گلشن اقبال کراچی)

سنن ابو داوٴد کے شارح  علامہ سبکی رحمہ اللہ  (شارح سنن ابی داؤد) نے لکھا ہے کہ :  داڑھی کا منڈانا سب ائمہ مجتہدین امام ابو حنیفہ ،امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے: "کان حلق اللحیة محرّماً عند ائمة المسلمین المجتهدین أبي حنیفة، ومالک، والشافعي، وأحمد وغیرهم - رحمهم الله تعالیٰ." 

(المىنهل العذب المورود، كتاب الطهارة، أقوال العلماء في حلق اللحية واتفاقهم على حرمته، 1/186، ط: مؤسسة التاريخ العربي، بيروت)

علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ العرف الشذی میں فرماتے ہیں :

"وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة."

(العرف الشذی، کتاب الآداب، باب ما جاء فی تقلیم الأظفار، 4/162، ط: دار الکتب العلمیۃ)

2۔   خطیب  اگر خطبے میں پوری سورت  پڑھتا ہو تو "اعوذ باللہ" اور "باسم اللہ" دونوں شروع میں پڑھے ، اور اگر صرف ایک یا دو آیت پڑھتا ہو تو صرف " أعوذ بالله "پڑھے۔

لہذا صورتِ مذکورہ میں خطیبوں کا یہ طریقہ  کہ: " أما بعد " اور " قال الله تعالى"  کے بعد " أعوذ بالله "  اور  " باسم الله "  پڑھ کر قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھتے  ہیں، یہ  طریقہ درست  نہیں ہے، بہتر اور درست طریقہ یہ ہے کہ اما بعد کے بعد " قال الله تعالى" نہ پڑھے، بلکہ متصل تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر یا صرف تعوذ پڑھ کر اگر سورت یا آیت پڑھنی ہو  قرآنِ کریم  کی کوئی  آیت پڑھنا شروع کردے۔

3۔ واضح رہے کہ اذان میں سنت طریقہ یہ ہے کہ ا ذان کے کلمات  وقفہ وقفہ اور تسلی سے پڑھے  جائیں، بلاوجہ آواز کو اوپر نیچے کرنا یا ہلانا  جائز نہیں ہے ، البتہ حسنِ صوت اذان میں مطلوب ہے ، لیکن اس میں بھی تکلّف کرنا صحیح  نہیں ہے۔

لہذا اذان میں لفظ:" الله أكبر"یا "حي على الصلوة " کے کھڑا زبر، اور"حي على الفلاح"کےالف  کو کھینچنے  کی گنجائش ہے،تاہم  بہتر یہ ہے کہ زیادہ لمبا نہ کیا جائے کہ جس سے الفاظ بدل  جائیں۔باقی  حرمین شریفین کی اذانوں میں ہمیں بظاہر تو  کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی  کہ جس سے کراہت پائی جاتی ہو، پھر بھی اگر آپ کو کسی مخصوص اذان میں اشتباہ ہے تو اس کی ریکاڈنگ سننے کے بغیر فتوی نہیں دیا جاسکتا، یاآپ  قریب میں کسی اور مستند دار الافتاء سے مراجعت کرسکتے ہیں۔

4۔ عورتوں کے لیے  نمازِ تروایح کی جماعت  میں شرکت کے لیے ، یا ذکر واذکار اور وعظ ونصیحت وغیرہ کے لیے کسی جگہ اہتمام سے اکھٹا ہونا  جائز نہیں ہے ، عورت کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے گھر بیٹھ کر اپنی تمام عبادات وغیرہ پردے کے ساتھ  انجام دے ، نیز   ایسی مجالس کاانعقاد کرنا بھی جائز نہیں  جس میں عورتیں  نظم ونسق کے ساتھ شرکت کرتی ہوں ، کیوں کہ ایک تو عورت کا گھر سے  نکلنا فتنے سے خالی نہیں ہے ، دوسرا یہ کہ ایسی مجالس کا التزام کے ساتھ ہر رمضان میں  انعقاد کرانایہ  ایک مستقل بدعت بن جانے کا خدشہ رکھتی ہیں۔ لہذا ایسی مجالس کے انعقاد کرانے سے گریز کرنا لازم ہے۔

5۔ فرض نمازوں کے بعد سنتوں یا  ذکر واذکار میں مشغول ہونے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں ہوں ان فرضوں کے بعد  امام کے لیے ذکرو اذکار،  یا لمبی دعاءوں میں مشغول ہونا مکروہ  ہے ، صرف اتنا بیٹھ سکتا ہے کہ جس میں "اللهم أنت السلام .. الخ" یا کوئی مختصر دعا پڑھی جاسکے،  لیکن اکیلے نماز ی ، یا مقتدی کے لیے انہیں فرضوں کے بعد  اگر تھوڑی  دیر کے لیے بیٹھ کر ذکر واذکار  ، یا دعاؤں  میں مشغول ہوجائے تو کوئی کراہت نہیں ہے، البتہ  جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہوتیں جیسے صبح اور عصر کی نمازیں، تو  ان نمازوں کے بعد امام کے لیے بیٹھنے اور ذکر واذکار میں مشغول ہونے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ انہیں نمازوں کے بعد امام  بیٹھ کر ذکر واذکار  پڑھ کر دعاء میں مشغول ہوجائے۔

مسند احمد میں ہے: 

"عن ابن عباس، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ قال حجاج: فقال: " ‌لعن ‌الله ‌المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال ".

(مسند أحمد ‌‌،من أخبار عثمان بن عفان رضي الله عنه،5/ 243 ط: مؤسسةالرسالة)

بخاری شریف میں ہے: 

"عن إبن عمر رضی الله عنهما عن النّبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال: خالفوا المشرکين وفّروا اللّحی وأحفوا الشّوارب. وکان إبن عمر إِذا حجّ أو اعتمر قبض علی لِحيته فما فضل أخذه."

(بخاري، الصحيح، ج: 5، ص:2209، رقم الحديث: 5553، ط: دار ابن کثير اليمامة)

مسلم شریف میں ہے: 

"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عشر ‌من ‌الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية ."

(صحيح مسلم، 1/ 153، ط: التركية)

اصول الشاشی میں ہے: 

"الحكم يتعلق بسببه ويثبت بعلته، ويوجد عند شرطه، فالسبب ما يكون طريقا إلى الشيء بواسطة، كالطريق فإنه سبب للوصول إلى المقصد بواسطة المشي."

(أصول الشاشي، فصل في الحكم، (ص: 353)، ط: دار الكتاب العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم فتح ...

(قوله: وأما الأخذ منها إلخ) بهذا وفق في الفتح بين ما مر وبين ما في الصحيحين عن ابن عمر عنه صلى الله عليه وسلم "أحفوا الشوارب واعفوا اللحية" قال: لأنه صح عن ابن عمر راوي هذا الحديث أنه كان يأخذ الفاضل عن القبضة، فإن لم يحمل على النسخ كما هو أصلنا في عمل الراوي على خلاف مرويه مع أنه روي عن غير الراوي وعن النبي صلى الله عليه وسلم يحمل الإعفاء على إعفائها عن أن يأخذ غالبها أو كلها كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم، ويؤيده ما في مسلم عن أبي هريرة عنه صلى الله عليه وسلم "جزوا الشوارب واعفوا اللحى خالفوا المجوس" فهذه الجملة واقعة موقع التعليل، وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الصوم،‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 2/ 418، ط: سعيد)

وفیہ ایضا: 

" أن من السنن قراءة آية، وقال في الإمداد وفي المحيط: يقرأ في الخطبة سورة من القرآن أو آية فالأخبار قد تواترت (أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ القرآن في خطبته)، لا تخلو عن سورة أو آية، ثم قال: وإذا قرأ سورة تامة يتعوذ ثم يسمي قبلها، وإن قرأ آية قيل يتعوذ ثم يسمي وأكثرهم قالوا يتعوذ ولا يسمي والاختلاف في القراءة في غير الخطبة كذلك، اهـ ملخصا، وبه علم أن الاقتصار على الآية غير مكروه فتدبر.جرت العادة إذا قرأ الخطيب الآية أن يقول قال الله تعالى بعد أعوذ بالله من الشيطان الرجيم"من عمل صالحا... إلخ " وفيه إيهام أن أعوذ بالله من مقول الله تعالى، وبعضهم يتباعد عن ذلك فيقول قال الله تعالى كلامًا أتلوه بعد قولي: أعوذ بالله إلخ، ولكن في حصول سنة الاستعاذة بذلك نظر لأن المطلوب إنشاء الاستعاذة ولم تبق كذلك، بل صارت محكية مقصودا بها لفظها، وذلك ينافي الإنشاء كما لا يخفى. فالأولى أن لا يقول: " قال الله تعالى."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الصلوة، باب الجمعة، مطلب في قول الخطيبقالالله تعالى -أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، 2/ 148149، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"(ولا ترجيع) فإنه مكروه ملتقى (ولا لحن فيه) أي تغني بغير كلماته فإنه لا يحل فعله وسماعه كالتغني بالقرآن وبلا تغيير حسن، وقيل لا بأس به في الحيعلتين (ويترسل فيه) بسكتة بين كل كلمتين. ويكره تركه، وتندب إعادته ...

(قوله: فإنه مكروه ملتقى) ومثله في القهستاني، خلافا لما في البحر من أن ظاهر كلامهم أنه مباح لا سنة ولا مكروه. قال في النهر: ويظهر أنه خلاف الأولى. وأما الترجيع بمعنى التغني فلا يحل فيه اهـ وحينئذ فالكراهة المذكورة تنزيهية ... (قوله: بغير كلماته) أي بزيادة حركة أو حرف أو مد أو غيرها في الأوائل والأواخر قهستاني. (قوله: وبلا تغيير حسن) أي والتغني بلا تغيير حسن، فإن تحسين الصوت مطلوب، ولا تلازم بينهما بحر وفتح. (قوله: وقيل) أي قال الحلواني: لا بأس بإدخال المد في الحيعلتين؛ لأنهما غير ذكر، وتعبيره بلا بأس يدل على أن الأولى عدمه."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الصلوة،‌‌باب الأذان، 1/ 387، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"(و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة)... (ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثا العجائز والمتفانية."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الصلوة،‌‌باب الإمامة، 1/ 565، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"وإذا سلم الإمام من الظهر والمغرب والعشاء كره له المكث قاعدا لكنه يقوم إلى التطوع ولا يتطوع في مكان الفريضة ولكن ينحرف يمنة ويسرة أو يتأخر وإن شاء رجع إلى بيته يتطوع فيه وإن كان مقتديا أو يصلي وحده إن لبث في مصلاه يدعو جاز وكذلك إن قام إلى التطوع في مكانه أو تأخر أو انحرف يمنة ويسرة جاز والكل سواء وفي صلاة لا تطوع بعدها كالفجر والعصر يكره المكث قاعدا في مكانه مستقبل القبلة والنبي عليه الصلاة والسلام سمى هذا بدعة ثم هو بالخيار إن شاء ذهب وإن شاء جلس في محرابه إلى طلوع الشمس وهو أفضل ويستقبل القوم بوجهه إذا لم يكن بحذائه مسبوق فإن كان ينحرف يمنة أو يسرة والصيف والشتاء سواء هو الصحيح. كذا في الخلاصة. وفي الحجة الإمام إذا فرغ من الظهر والمغرب والعشاء يشرع في السنة ولا يشتغل بأدعية طويلة. كذا في التتارخانية."

(الفتاوى الهندية، كتاب الصلوة، الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها،1/ 77، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں