بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خالہ اورخالو کے ہمراہ لڑکی کا عمرے پر جانا


سوال

میری ایک بہن کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے ورثاء میں شوہر، ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ میں بچی کی خالہ ہوں، میں اور میرے شوہر رمضان میں عمرہ کے لیے جانے کا ارداہ رکھتے ہیں، اور میری مرحومہ بہن کی بیٹی ہمارے ساتھ عمرے کے لیے جانے پر بضد ہے،  مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر اس لڑکی کے خالو ہیں اور نا محرم ہیں، لڑکی کا کوئی محرم اس سفر میں ساتھ نہیں ہوگا، اس لڑکی کے والد اور دو بھائی تو ہیں، مگر عمرہ ادا کرنے کے لیے صاحبِ حیثیت نہیں ہیں، خاندان والے اس لڑکی کے عمرے کے لیے رقم دینے کے لیے تیار ہیں، اس کے والد اور کسی بھائی کے لیے دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔

کوئی ایسا حل بتائیں، جس کی وجہ سے خالہ اور خالو اس لڑکی کو اپنے ساتھ عمرے پر لے جا سکیں، بچی کی شدید خواہش ہے کہ وہ میرے(خالہ) کے ساتھ عمرے پر جائے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی عورت کے حج یا عمرے پر جانے کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ مکہ مکرمہ سے مسافتِ سفر کی مقدار دور ہو تو اس کے ساتھ شوہر یا  کسی محرم کا ہونا ضروری ہے، محرم کے بغیر سفر کرنا عورت کے لیے ناجائز اور حرام ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، کسی بھی حالت میں بغیر شوہر یا محرم کے جانا جائز نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی بھانجی کا اپنے کسی محرم کے بغیر صرف اپنے خالو اور خالہ کے ہمراہ عمرے کے سفر پر جانا جائز نہیں ہے۔

حرمین کی زیارت کا شوق ہونے کے باوجود شرعی حکم کی پاسداری کریں، ان شاء اللہ  اس پر بھی اجر و ثواب ملے گا، نیزاللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتی رہیں، جب محرم کا انتظام ہو جائے، تب عمرہ/حج کے لیے جائیں۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تسافر ‌مسيرة ‌يوم وليلة ليس معها حرمة".

(بخاری شریف، أبواب تقصیر الصلاۃ، ج:١،ص:٣٦٩، ط:دار ابن کثیر)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"اللہ اور یوم ِ آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی بھی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک دن ،ایک رات کی مسافت کا سفر بغیر محرم کے کرے۔"

 بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذی یخص النساء فشرطان: أحدہما أن یکون معہا زوجہا أو محرم لہا فان لم یوجد أحدہما لایجب علیہا الحج وہذا عندنا، وعند الشافعیؒ ہٰذا لیس بشرط ویلزمہا الحج والخروج من غیر زوج ولامحرم إذا کان معہا نساء فی الرفقۃ ثقات واحتج بظاہر قولہٖ تعالٰی: ’’وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً‘‘ وخطاب الناس یتناول الذکور والإناث بلاخلاف الخ۔ ولنا ما روی عن ابن عباسؓ عن النبی  ﷺ أنہٗ قال:’’ ألا لاتحجن امرأۃ إلا ومعہا محرم‘‘ وعن النبی ﷺ أنہٗ قال: ’’لا تسافر امرأۃٌ ثلاثۃَ أیام إلا ومعہا محرم أو زوج‘‘ ولأنہا إذا لم یکن معہا زوج ولا محرم لایؤمن علیہا إذا النساء لحم علی وضم إلا ماذب عنہ ولہذا لایجوز لہا الخروج وحدہا والخوف عند اجتماعہن أکثر ولہذا حرمت الخلوۃ بالأجنبیۃ وإن کان معہا امرأۃ أخریٰ والآیۃ لاتتناول النسائَ حالَ عدم الزوج والمحرم معہا لأن المرأۃَ لم تقدر علی الرکوب والنزول بنفسہا."

(کتاب الحج، ج:٢، ص:١٢٣، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں