بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کھیتی کو نقصان پہنچانے والے جانور (کو جان سے ماردینے یا سزا کے طور پر بھوکا رکھنے) کا حکم


سوال

  شریعت مطہرہ اس جانور کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے جو دوسروں کے کھیتوں میں داخل ہوتا ہے اور نقصان کرتا ہے؟ اور اگر ایسے جانور کو کھیت کا مالک زخمی کردے یا قتل کردے تو زمین کے مالک پر اس کا تاوان لازم ہوگا ؟

  اگر زمین کا مالک اس جانور کو پورا دن بطور سزا بھوکا باندھ دے اور شام کو اس کے مالک کے حوالے کردے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ 

جواب

1: واضح رہے کہ اگر کوئی جانور کسی کے کھیت کو نقصان پہنچائے اور وہ جانور کسی اور جگہ بندھا ہوا ہے یا اپنے باڑ میں بندھا ہوا ہے؛ لیکن رسی توڑ کر نقصان کرے تو اس کا ضمان مالک پر نہیں آئے گا چاہے وہ نقصان دن کو کرے  یا رات کو ،اور اگر کوئی اس کو کھول کر چھوڑ دے اور اس کے ساتھ ہنکانے والا موجود ہو تو اس صورت میں ہنکانے والا نقصان کا ضامن ہوگا ،اور اگر کوئی ہنکانے والا اس کے ساتھ موجود نہ ہو، بلکہ جانور کو کھیت کی طرف چھوڑا گیا ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں :

  • جانور کو چھوڑ نے کے بعد وہ  جانورکسی کے کھیت میں چلا گیا اور  نقصان کیا  تو جانور کو چھوڑنے والا اس  نقصان کا ضامن ہوگا ،یعنی جب چھوڑنے کے بعدوہ جانور نہ کہیں رکا اور نہ ہی  دائیں بائیں جانب مڑا ، بلکہ اسی طرف گیا ہو جس طرف اس کو چھوڑا  گیا ہو تو چھوڑنےوالا  نقصان کا ضامن ہوگا، کیونکہ اس صورت میں جانور کا یہ چلنا اس چھوڑنے والے کی طرف منسوب ہوگا۔

  • جانور راستہ میں رک کر پھر روانہ ہوا،یا جس جانب کو چھوڑا گیا تھا اس سے دائیں بائیں جانب مڑا ہو اور اس کے بعد وہ نقصان کرے تو اس کا ضمان لازم نہ ہوگا ۔

باقی ان جانوروں کو مارنا یا بھوکا رکھنا یا زخمی کرنا جائز نہیں،  بصورتِ  دیگر مارنے والے پر جانور کا  تاوان لازم ہوگا۔

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے :

"(‌و لو ‌أرسل ‌بهيمة فأفسدت زرعًا على فوره) ش: أي فور الإرسال والمراد بفور الإرسال أن لا يميل يمينا ولا شمالا م: (ضمن المرسل، وإن مالت يمينا أو شمالا وله طريق آخر لا يضمن لما مر) ش: وفي (الفتاوى الصغرى : أرسل حماره فدخل زرع إنسان فأفسده، فإن ساقه إلى الزرع ضمن، وإن لم يسقها بأن لم يكن خلفها وإن لم تنعطف الدابة يمينا ولا شمالا وذهب إلى الوجه الذي أرسله صاحبه فأصاب الزرع ضمن أيضا، وإن انعطف يمينا وشمالا فأصاب الزرع إن كان له طريق آخر لم يضمن وإلا يضمن في ديار شيخ الإسلام - رَحِمَهُ اللَّهُ - م: (ولو انفلتت دابة فأصابت مالا أو آدميا ليلا أو نهارا لا ضمان على صاحبها لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -) ش: أي لقول النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ م: «جرح العجماء جبار» ش: الحديث رواه أبو داود وابن ماجه عن الليث بن سعد عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «العجماء جرحها جبار»".

(کتاب الدیات، باب جناية البهيمة والجناية عليها، ج:13، ص:269، دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"رجل أرسل حماره، فدخل زرع إنسان، وأفسده، إن أرسله وساقه إلى الزرع بأن كان خلفه كان ضامنا، وإن لم يكن خلفه إلا أن الحمار ذهب في فوره، ولم يعطف يمينًا و شمالًا، و ذهب إلى الوجه الذي أرسله، فأصاب الزرع كان ضامنا، وإن ذهب يمينا وشمالا ثم أصاب الزرع، فإن لم يكن الطريق واحدًا لايكون ضامنًا، وإن كان الطريق واحدا كان ضامنا، وإن أرسله، فوقف ساعة، ثم ذهب إلى الزرع، وأفسد لا يضمن المرسل كذا في، فتاوى قاضي خان۔وحكي عن الشيخ الإمام أبي بكر محمد بن الفضل البخاري -رحمه الله تعالى - فيمن أرسل بقره من القرية إلى أرضه، فدخل في زرع غيره، فأكل إن كان له طريق غير ذلك لا يضمن، وإن لم يكن له طريق غير ذلك يضمن، فأما إذا خرجت الدابة من المربط، وأفسدت زرع إنسان أو تركها في المرعى، فأفسدت زرع إنسان، فلا ضمان".

(كتاب الجنايات، الباب الثاني عشرفي جناية البهائم والجناية عليها، ج:6، ص:52، ط:دارالفكر)

البحرالرائق میں ہے :

"و في المبسوط: ‌إذا ‌أرسل ‌دابة ‌في ‌طريق ‌المسلمين فما أصابت في فورها فالمرسل ضامن؛ لأن سيرها مضاف إليه ما دامت تسير على سنتها ولو انعطفت عنه يمنة أو يسرة انقطع حكم الإرسال إلا إذا لم يكن له طريق آخر سواه وكذا إذا وقفت ثم سارت أي ينقطع حكم الإرسال بالوقفة أيضا كما ينقطع بالعطفة".

(كتاب الديات، باب جناية البهيمة والجناية عليها وغير ذلك، ج:8، ص:413، دارالكتاب الاسلامي)

2:نیز واضح رہے کہ بے زبان جانوروں کو کسی بھی طریقہ سے  تکلیف دینا یا ان پر ظلم کرنا سخت ترین گناہ ہے ،احادیث مبارکہ میں ایسے آدمی کے بارے میں جو جانورکو تکلیف دیتا ہویا اس پر ظلم کرتا ہو سخت قسم کی وعیدیں آئی ہیں ،حضرت ابن عمر   اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔ایک اور روایت میں ہے  کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی، لہٰذا صورت ِ مسئولہ میں کسی بے زبان جانور کو بھوکا رکھ کر سزا دینا، ظلم کرنا اور  اسے تکلیف دینا شرعاً جائز نہیں ، اس سے اجتناب لازم ہے۔

بخاری شریف میں ہے :

"عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما:أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الكسوف، فقال:دنت مني النار، حتى قلت: أي رب وأنا معهم، فإذا امرأة - حسبت أنه قال - ‌تخدشها ‌هرة، قال: ما شأن هذه؟ قالوا: حبستها حتى ماتت جوعا".

(کتاب المساقاۃ، باب فضل سقی الماء، ج:2، ص:833، ط:دارابن کثیر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن ابن عمر وأبي هريرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌عذبت ‌امرأة في هرة أمسكتها حتى ماتت من الجوع فلم تكن تطعمها ولا ترسلها فتأكل من خشاش الأرض»".

(کتاب الزکات، باب فضل الصدقة، ج:1، ص:595، ط:المکتب الاسلامی)

شرح النووی میں ہے :

"وفي الحديث دليل لتحريم قتل الهرة وتحريم حبسها بغير طعام أو شراب وأما دخولها النار بسببها كظاهر الحديث أنها كانت مسلمة وإنما دخلت النار بسبب الهرة وذكر القاضي أنه يجوز أنها كافرة عذبت بكفرها وزيد في عذابها بسبب الهرة واستحقت ذلك لكونها ليست مؤمنة تغفر صغائرها باجتناب الكبائر هذا كلام القاضي والصواب ماقدمناه أنها كانت مسلمة وأنها دخلت النار بسببهاكما هو ظاهر الحديث وهذه المعصية ليست صغيرة بل صارت بإصرارها كبيرة".

(باب تحریم قتل الھرۃ، ج:14، ص:240، ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں