پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے، اگر کسی آدمی نے کھڑے ہوکر پی لیا تو کیا اس کی پکڑ ہوگی ؟
واضح رہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کے متعلق کتبِ حدیث میں کئی ساری احادیث مروی ہیں، اُن میں سے بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت وارد ہے، اور بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت موجود ہے، لہٰذا دونوں طرف کی احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی مجبوری ہو (مثلاً رش ہو یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو) تو کھڑے ہوکر پانی پینا بلا کراہت جائز ہے، لیکن بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پینا اور اس کی عادت بنا لینا مکروہِ تنریہی (یعنی خلافِ ادب) ہے؛ کیوں کہ اس سے انسان کے جسم میں بیماریاں پیدا ہونے اور اس كو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
لہٰذا بیٹھ کر پانی پینا باعثِ ثواب ہے، لیکن اگر کسی نے بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پی لیا تب بھی وہ گناہ گار نہیں کہلائے گا اور نہ ہی اُس کی پکڑ ہوگی، بلکہ صرف بیٹھ کر پانی پینے کے ثواب سے محروم ہوگا۔ نیز یہ مذکورہ حکم آبِ زم زم اور وضو کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ کا ہے؛ کیوں کہ آبِ زم زم اور وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہوکر پینا مکروہ نہیں، بلکہ مستحب ہے۔
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"واعلم أنه روي في الشرب قائما أحاديث كثيرة. منها: النهي عن ذلك ... ومنها: إباحة الشرب قائما ... وقال النووي: إعلم أن هذه الأحاديث أشكل معناها على بعض العلماء، حتى قال فيها أقوالا باطلة، والصواب منها: أن النهي محمول على كراهة التنزيه، وأما شربه قائما فلبيان الجواز، ومن زعم نسخا فقد غلط، فكيف يكون النسخ مع إمكان الجمع، وإنما يكون نسخا لو ثبت التاريح فأنى له ذلك؟ وقال الطحاوي ما ملخصه: أنه صلى الله عليه وسلم أراد بهذا النهي الإشفاق على أمته، لأنه يخاف من الشرب قائما الضرر، وحدوث الداء، كما قال لهم: أما أنا فلا آكل متكئا. انتهى."
(كتاب الحج، باب ما جاء في زمزم، ٩ / ٢٧٨ -٢٧٩، ط: دار إحياء التراث العربي)
مظاہر حق جدید میں ہے:
" ازالہ تعارض :نہی تنزیہی ہے۔ کھڑے ہو کر پینے کی عادت بنالینے پر نہی محمول کی گئی ہے اور آپ ﷺ کا فعل بیان جواز کے لئے ہے اور زمزم کا پانی اور وضو کا بچا ہوا پانی اس نہی سے مستثنیٰ ہے۔ ان کو کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے بعض فقہی روایات میں ہے کہ صرف زمزم اور وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیئیں۔ "
( مشروبات کا بیان، ٤ / ١٤٥. ط: مکتبۃ العلم)
فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
"ولا بأس بالشرب قائما، ولا يشرب ماشيا ورخص للمسافرين، ولا يشرب بنفس واحد، ولا من فم السقاء والقربة؛ لأنه لا يخلو عن أن يدخل حلقه ما يضره، كذا في الغياثية."
(كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به، ٥/ ٣٤١، ط: دار الفكر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقا.
قال عليه في الرد: (قوله فإلى الحل أقرب) بمعنى أنه لا يعاقب فاعله أصلا، لكن يثاب تاركه أدنى ثواب تلويح، وظاهره أنه ليس من الحلال، ولا يلزم من عدم الحل الحرمة ولا كراهة التحريم، لأن المكروه تنزيها كما في المنح مرجعه إلى ترك الأولى."
(كتاب الحظر والإباحة، ٦ / ٣٣٧، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144409100378
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن