بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خادمینِ مسجد کاجوتوں کی حفاظت کے لیے جماعت کی نماز چھوڑنا


سوال

 ہماری مسجد میں نمازیوں کی چپلیں وغیرہ کی چوری کی کثرت کی وجہ سے انتظامیہ نے یہ سوچا ہےکہ نماز کے اوقات میں مسجد کے خدام کو مسجد کے گیٹ پر چوکیداری کیلئے کھڑا کیا جائے اور وہ بعد میں اپنی نماز ادا کرلیں سوال یہ ہیکہ خادمین کا چپلوں کی حفاظت کی خاطر مسجد میں ہوتے ہوئے جماعت کی نماز کو ترک کرنا جائز ہے؟ اور اگر مسجد کی انتظامیہ خادمین کو مجبور کرے تو جماعت چھوڑنے کے گناہ گار انتظامیہ ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا سنتِِ مؤکدہ ، واجب کے قریب ہے، احادیثِ مبارکہ میں ترکِِ جماعت پر سخت وعیدیں آئی ہیں، بلاعذر جماعت ترک کرنا گناہ ہے، ہر مسلمان مرد پر ضروری ہے کہ وہ مساجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرے،البتہ اپنے سامان کی حفاظت کے لیے جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے ،لیکن دوسرے کے سامان کی حفاظت کے لیے جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں ،لہذاصورتِ  مسئولہ میں خادمین کے لیے جوتوں کی حفاظت کوئی ایسا عذر نہیں ہے کہ وہ نمازباجماعت کو ترک کریں ،اور نہ ہی انتظامیہ کے لیے جائز ہے کہ وہ جماعت کو چھوڑکر جوتوں کی حفاظت کے لیے خادمین کو مجبور کرے،یانمازی حضرات اپنے جوتے کسی تھیلی میں بھر کر اپنے سامنے یاساتھ رکھیں،یا اس کام کے لیے کسی غیرمسلم کو مقررکردیں ،یا کسی نابالغ بچے کے ذمہ یہ کام سپرد کریں۔

سننِ نسائی میں ہے :

"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية»۔ قال السائب: يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة."

(کتاب الصلوۃ ،2/ 106،ط:بیروت)

"ابو درداء  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد  ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں  کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔"

سننِ ترمذی میں ہے:

"حدثنا ‌المغيرة بن أبي قرة السدوسي قال: سمعت ‌أنس بن مالك يقول: «قال رجل»: يا رسول الله، ‌أعقلها وأتوكل أو أطلقها وأتوكل، قال: ‌اعقلها وتوكل."

(باب منه،ج:4،ص:285،ط:دارالغرب الإسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)."

(کتاب الصلوۃ ،باب الجماعة1/ 552،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج...وتسقط الجماعة بالأعذار حتى لا تجب على المريض والمقعد والزمن ومقطوع اليد والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا يستطيع المشي والشيخ الكبير العاجز والأعمى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة. كذا في التبيين وتسقط بالريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا إذا كان يدافع الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة أو كان قيما لمريضأويخاف ضياع ماله وكذا إذا حضر العشاء وأقيمت صلاته ونفسه تتوق إليه، وكذا إذا حضر الطعام في غير وقت العشاء ونفسه تتوق إليه. كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الصلاة، الفصل الأول في الجماعة، ج:1، ص:82،ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"ويباح قطعها لنحو قتل حية، وند دابة، وفور قدر، وضياع ما قيمته درهم له أو لغيره.الخ"

( كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 1/654، ط: دار الفكر )

حلبي کبیر میں ہے :

" وکذا الأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکها من غیر عذر یعزر، وترد شهادته، ویأثم الجیران بالسکوت عنه، و هذہ کلها أحکام الواجب."

(کتاب الصلوۃ،فصل في الإمامة،ص/509، ،ط:بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں