بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانسی کی وجہ سے سنن غیر مؤکدہ ترک کرنا


سوال

اگر کھانسی بڑی  شدت سے آرہی ہو تو کیانماز مختصر کرکے پڑھ سکتے ہیں؟یعنی جو نماز لمبی ہو جیسے نماز عِشاء ہے اور نماز اگر مختصر کرنی ہو تو کون سی رکعتیں چھوڑی جائیں؟

جواب

فرائض کے  ساتھ جو  نمازیں پڑھی جاتی ہیں، وہ یہ ہیں:

(1) سنتِ مؤکدہ (2) سنتِ غیرمؤکدہ  (3) نوافل
سنتِ مؤکدہ : وہ ہےجس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمیشہ کیا ہو یا کرنےکی تاکید کی ہو اور بلا عذر ترک نہ کیا ہو، اس کا حکم بھی عملاً واجب کی طرح ہے، یعنی بلا عذر اس کا تارک گناہ گار اور ترک کا عادی سخت گناہ گار اور فاسق ہے اور شفاعتِ نبی ﷺ سے محروم رہےگا۔ ( درمختار مع الشامی ج١ ص ٥٩٢ )

سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک جائز نہیں ہے، جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائق ملامت ہے۔البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت  تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔[کفایت المفتی 3/319،دارالاشاعت]

سنتِ  غیر مؤکدہ  جو رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو، لیکن بغیر عذر کے بھی اس کا ترک ثابت ہو، اس کا حکم سنتِ مؤکدہ کی بنسبت اخف ہے، سنتِ غیرموکدہ پڑھنے پر ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں، اس  کابھی اہتمام کرناچاہیے، اس  کے ترک کی عادت نہیں بنانی چاہیے، اسی طرح نوافل پڑھنے پرثواب ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ کوئی نہیں۔

لہذا اگر کوئی شخص بیمار ہو اور تکلیف میں ہو ، مثلاً  شدید کھانسی ہو تو ایسے شخص کے لیے فرائض اور سننِ  مؤکدہ چھوڑنے کی اجازت نہیں، ہاں! عذر کی وجہ سے  سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل کے ترک کرنے کی گنجائش ہے، اور کھانسی شدید ہونے کی وجہ سے طویل تلاوت نہ کرسکتا ہو تو سنتِ مؤکدہ اور وتر میں تلاوت (تلاوت کی واجب مقدار پوری کرتے ہوئے تلاوت کو) مختصر کرسکتا ہے۔اور فرض نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"تركه لايوجب إساءةً و لا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل." [1/477دارالفکر]

البحرالرائق میں ہے:

"سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب، حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، و لهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، و عند أبي يوسف يحبسون و يضربون، و هو يدل على تأكده لا على وجوبه." [3/6]

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و لهذا كانت السنة المؤكدة قريبةً من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر. و يستوجب تاركها التضليل و اللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر." [2/12]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں