بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندان میں جمع ہونے والے مختلف فنڈزکا حکم


سوال

ہمارے خاندان والوں نے آپس میں فنڈ جمع کرنے کا فیصلہ کیا ،جس میں مندرجہ ذیل باتیں ہیں:

1:ہمارے خاندان میں کسی کے ہاں اگر بیٹا پیدا ہواتو اس بچہ کے والد صاحب کو فنڈ میں تین ہزار روپے جمع کرنے ہوتے ہیں اور اگر بیٹی پیدا ہوئی تو اس کو پندرہ سو روپے جمع کرنے ہوتے ہیں ۔

2:ہر شادی شدہ بندہ ہر مہینہ اس فنڈ میں تین سو روپے جمع کرتا ہے.(یہ دو شرائط اپنی خوشی سے طے کردئے گئے ہیں اور ان کو دینا کوئی لازم نہیں ہوتا)

3:خاندان میں اگر کسی کی بیٹی کی شادی ہو تو  اس کے شوہر سے یا لڑکی کے سسرال سےدس ہزار روپے فنڈ کا مطالبہ کرتے ہیں،اور یہ دس ہزار روپے فنڈ کے علاوہ ہوتے ہیں ،اور یہ دس ہزار روپے دینے پر بعض ناراض ہوتے ہیں (خوشی سے نہیں دیتے ہیں)اور بعض خوشی سے دیتے ہیں۔

نوٹ:فنڈ  قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر خاندان میں کسی کو بڑی رقم کی ضرورت پیش آجائے اور اس کے پاس اپنے پیسے نہ ہوں تو وہ فنڈ سے بطور قرض لے سکتا ہے،لینے کے بعد وہ اسی رقم کو واپس فنڈ میں جمع کرتا ہے،اس طرح خاندان میں اگر کوئی جھگڑاوغیرہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوجائے اسمیں   جہاں  رقم کی ضرورت ہوتی ہے اس پر  فنڈ سےرقم خرچ کرتے ہیں ،اسی طرح اس خاندان کا کوئی فرد کراچی یا دوسرے دور کے علاقوں میں مرجائے تو اس کو آبائی علاقے  پہنچانے کے لئے جو کرایہ کی رقم کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسی فنڈ سے لیا جاتا ہے۔

اس مسئلہ کا شرعی اعتبار سے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ آج کل مختلف مقامات پر خاندان اور برادری میں مختلف  کمیٹیاں بنانے کا رواج چل پڑا ہے، عام طور پر یہ کمیٹیاں خاندان میں ہونے والی اموات اور خاندان میں پیش آنے والے مختلف مسائل حل کرتی ہیں اور اس کے  اخراجات برداشت کرتی ہیں اور اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں:

1:خاندان میں اگر کوئی میت ہوجائے تو اس کے کفن و دفن کے اخراجات، یعنی کفن، قبرستان تک لے جانے کے لیے گاڑی اور قبر وغیرہ کا خرچہ، اس طرح میت کے اہل خانہ  اور آنے والے مہمانوں کے لئے کھانے کا بندوبست کرنا۔

2:خاندان میں اگر کوئی خوشی کا موقع ہو یا اسی طرح کے دیگر معاملات (کسی کے ساتھ جھگڑا وغیرہ)پیش آجائے تو وہی کمیٹی اس کےتمام  اخراجات برداشت کرتی ہے۔

شرعی نکتہ نگاہ میں میت کے اخراجات کی تفصیل حسب ذیل ہے:

میت کی تجہیز و تکفین کا خرچہ:

جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے اخراجات کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ذاتی مال موجود ہوتو اس کے کفن دفن کا خرچہ اسی میں سے کیا جائے گا،  اگر اس کے ترکہ میں مال موجود نہیں تو اس کے یہ اخراجات اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس پر اس کی زندگی میں مرحوم کا خرچہ واجب تھا، لہٰذا اگر میت کا باپ اور بیٹا دونوں زندہ ہوں تو کفن و دفن کے اخراجات بیٹے کے ذمہ ہوں گے، کیوں کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی مال نہ ہواور اس کا باپ اور بیٹا دونوں موجود ہوں تواس کے اخراجاتِ زندگی  میں بیٹے پر واجب ہوتے ہیں ،باپ پر نہیں، بیوی کا کفن دفن شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے، اگرچہ اس کے پاس مال موجود ہو۔ 

اگر میت کے پس ماندگان میں ایسا کوئی شخص نہ ہو جس پر اس کا خرچہ واجب ہوتا ہے یا ایسا کوئی فرد موجود ہو، لیکن وہ خود اتنا غریب ہو کہ یہ خرچہ برداشت نہیں کرسکے تو تکفین و تدفین کی ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہے، لیکن اگر حکومتِ وقت یہ خرچہ نہیں اُٹھاتی یا ان کے نظم میں ایسی کوئی صورت نہ ہو تو جن مسلمانوں کو اس کی موت کا علم ہے، ان پر اس کی تکفین و تدفین کا خرچہ واجب ہے، اگر جاننے والے بھی سب غریب ہیں تو پھر وہ لوگوں سے چندہ کرکے یہ اخراجات برداشت کریں اور جو رقم باقی بچے وہ دینے والے کو واپس کریں، اگردینے والے کا علم نہ ہو تو اس رقم کو سنبھال کر رکھیں، اور اگر دوبارہ اس طرح کی صورتِ حال پیش آئے تو اس کی تکفین و تدفین میں اُسے خرچ کریں۔ 

مروجہ انجمنوں اور کمیٹیوں کے مقاصد بظاہر  نیک اور ہم دردانہ ہے، لیکن یہ کمیٹیاں مذکورہ مقاصد سے ہٹ کر کئی شرعی قباحتوں پر مشتمل  ہیں:

1:کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب، ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار(جوا)کے  مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

2:کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔

3:بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4:اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔

5:جو لوگ کمیٹی کو چندہ کے طور پر رقم جمع کراتے ہیں تو ان لوگوں کی طرف سے دی گئی رقم کی حیثیت امانت یا قرض کی ہے، لہذا اِس صورت میں اگر چندہ دینے والے کا انتقال ہوجائے اور اس رقم میں میت کی رقم بھی شامل ہو تو وہ  رقم اس کا ترکہ بن جاتاہےجو چندہ دینے والے (میت)  کے ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی، جب کہ کمیٹی والے اس رقم کو بھی میت کے کھانے پر خرچ کرتے ہیں جو شرعاً جائز نہیں۔

6:اگر چندہ دینے والا صاحبِ نصاب ہو تو اِس رقم پر زکوۃ کی ادائیگی بھی لازم ہوگی حالانکہ کمیٹی میں کوئی شخص بھی اپنی جمع کرائی گئی رقم سے  زکوۃ ادا نہیں کرتا، جو کہ شرعاً گناہ کبیرہ ہے۔

7:نیز کمیٹی  میں اس شخص کی رقم بھی شامل ہوتی ہے جس کے گھر فوتگی ہوئی ہے، اور اسی رقم سے بسا اوقات میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جاتاہے،حالانکہ شریعت نے یہ ذمہ داری میت کے اہل خانہ پر نہیں، بلکہ پڑوس اور اہل محلہ پر ڈال دی ہے۔

لہٰذا   صورت مسئولہ میں ذکر کردہ انجمن کمیٹیاں   بنانا مذکورہ بالا قباحتوں کے پیشِ نظر جائز نہیں ہے، اس سے بچنا لازم ہے،البتہ اس کا متبادل حل یہ ہے کہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخودفی سبیل اللہ   چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کےضرورت مند لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لےقطع نظر اس بات کہ کس نے چندہ دیا اور کس نے نہیں دیا  تو یہ شرعًا  درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

 "(یبدأ من ترکة المیت  بتجهیزه)  یعم التکفین (من غیر تقتیر ولا تبذیر ) ککفن السنة أو قدر ما کان یلبسه في حیاته".

( کتاب الفرائض،ج: 7،ص:759،ط:سعید)

درالمختار میں ہے:

"(واختلف في الزوج والفتوی علی وجوب کفنها علیه ) عند الثاني ( وإن ترکت مالاً) خانیة، ورجحه في البحر بأنه الظاهر؛ لأنه ککسوتها".

(کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج:2،ص:205،ط:سعید)

وفیہ ایضًا:

"(وکفن من لا مال له علٰی من تجب علیه نفقته) فإن تعددوا فعلی قدر میراثهم".

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: فعلی قدر میراثهم ) کما کانت النفقة واجبة علیهم فتح، أی فإنها علی قدر المیراث فلو له أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول السدس والباقي علی الشقیق. أقول: ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقة أنه لو کان له ابن وبنت کان علیهما سویة کالنفقة إذ لایعتبر المیراث في النفقة الواجبة علی الفرع لأصله ولذا لو کان له ابن مسلم وابن کافر فهي علیهما ومقتضاه أیضاً أنه لو کان للمیت أب وابن کفنه الابن دون الأب کما في النفقة علی التفاصیل الآتیة في بابها إن شاء اللّٰه تعالی".

درالمختارمیں ہے:

"(وإن لم یکن ثمة من تجب علیه نفقته ففي بیت المال فإن لم یکن ) بیت المال معموراً أو منتظماً (فعلی المسلمین تکفینه ) فإن لم یقدروا سألوا الناس له ثوباً فإن فضل شیء رد للمصدق إن علم وإلا کفن به مثله وإلا تصدق به، مجتبی. وظاهره أنه لایجب علیهم إلا سؤال کفن الضرورة لا الکفایة ولو کان في مکان لیس فیه إلا واحد وذلک الواحد لیس له إلا ثوب لایلزمه تکفینه به.

فتاوی شامی  میں ہے:

(قوله:فإن لم یکن بیت المال معموراً ) أی بأن لم یکن فیه شيء أو منتظماً أي مستقیمًا بأن کان عامراً ولایصرف مصارفه ط، (قوله: فعلی المسلمین ) أي العالمین به وهو فرض کفایة یأثم بترکه جمیع من علم به، ط ، (قوله: فإن لم یقدروا ) أي من علم منهم بأن کانوا فقراء، (قوله: وإلا کفن به مثله ) هذا لم یذکره في المجتبی، بل زاده علیه في البحر عن التنجیس و الواقعات، قلت: وفي مختارات النوازل لصاحب الهدایة: فقیر مات فجمع من الناس الدراہم وکفنون وفضل شیء إن عرف صاحبه یرد علیه وإلا یصرف إلى کفن فقیر آخر أو یتصدق به".

(کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج:2،ص:206،ط:سعید)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثانی،رقم الحدیث:2946، ج:2،ص:889، ط:المکتب الإسلامي،بیروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"(" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية،ج:5،ص:1974، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101924

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں