بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاک پر سجدہ کرنے کا حکم


سوال

ہم سنی مسلمان خاک پر سجدہ کیوں نہیں کرتے  حال آں کہ کچھ لوگ خاک پر سجدہ کرنے کی دلیل قرآن مجید سے دیتے ہیں؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں خاک پر سجدہ کرنا جائز ہے  چناچہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لیے تمام زمین کو سجدہ گاہ اور پاک قرار دیاگیا ہے ، اس حدیث سے  معلوم ہو    کہ زمین کا ہر حصہ سجدہ گاہ اور پاک کرنے والا ہے: لہذا اس پر سجدہ اور تیمم کیا جاسکتا ہے ،پس  اس روایت کی تفسیریہ ہے کہ خداکی عبادت اور اسکے سجدہ کے لیے کوئی جگہ مخصوص  نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے ہر جگہ مسجد ہے دوسروں کے برخلاف جو عبادت کی جگہ فقط کلیسا یا کنیسہ کو قرار دیتے ہیں ۔

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خاک پر سجدہ کرنا لازم وضروری ہے اور اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، کیوں کہ تمام زمین کو سجدہ گاہ بنانے کی حکمت تو اس امت مرحومہ کو عبادت میں آسانی فراہم کرنا ہے، اور اگر صرف خاک کو سجدہ گاہ مانا جائے تو پھر تمام زمین کو سجدہ گاہ قرار دینے کی حکمت ہی فوت ہوجاتی ہے اور وہی سابقہ امت کی طرح مشقت لازم آئے گی کہ جب تک خاک میسر نہ ہو تب تک نماز نہیں پڑھ سکیں گے اور پھر بعض لوگوں کی طرح ہر کسی کو ہر جگہ اپنی جیب میں خاک لے کر گھومنا پڑے گا۔ 

باقی جس دلیل کی طرف سائل نے سوال کی طرف اشارہ کیا ہے وہ دلیل اگر فی الواقع ہے تو اسے تفصیل سے لکھ کر بھیجیں ان شاءاللہ اس کا شافی جواب دے دیا جائے گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثنا محمد بن فضيل عن أبي مالك الأشجعي، عن ربعي، عن حذيفة؛ قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‌فضلنا ‌على الناس بثلاث: جعلت صفوفنا كصفوف الملائكة،وجعلت لنا الأرض كلها مسجدا. وجعلت تربتها لنا طهورا، إذا لم نجد الماء". وذكر خصلة أخرى."

(كتاب المساجد ومواضع الصلاة،371/1،ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ :حضرت حذیفہ۔ رضی اللہ عنھا ۔نے فرمایا کہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے فرمایا ہمیں (امت محمد یہ کو) سارے لوگوں پر تین باتوں سے فضلیت دی گئی ہے ایک یہ کہ ہماری صفوں کا مرتبہ اللہ کے یہاں ملائکہ کی صفوں کا ہے دوسرے یہ کہ ساری زمین ہماری لئے مسجد بنادی گئے اور اس کی مٹی کو ہمارے لئے پاکی کے حصول کا ذریعہ بنادیا گیا جب ہمیں پاکی نہ ملے اور ایک بات اور ذکرکی ۔(تحفہ المنعم)

بذل المجہود فی حل سنن ابی داود  میں ہے:

"ثم قال الخطابي: إنما جاء قوله: "‌جعلت ‌الأرض مسجدا وطهورا" على مذهب الامتنان على هذه الأمة بأن رخص لهم في الطهور في الأرض والصلاة عليها في بقاعها، وكانت الأمم المتقدمة لا يصلون إلا في كنائسهم وبيعهم."

(باب في المواضع التي لا تجوز فيها الصلاة،224/3،ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية)

صحیح بخاری  میں ہے:

"حدثنا أبو الوليد قال: حدثنا شعبة قال: حدثنا سليمان الشيباني، عن عبد الله بن شداد، عن ميمونة قالت:‌كان ‌النبي صلى الله عليه وسلم يصلي على الخمرة."

(كتاب الصلاة،باب: الصلاة على الخمرة،150/1،ط: دار ابن كثير)

" ترجمہ :حضر ت میمونہ ۔رضی اللہ عنھا ۔فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔چٹائی پرنماز ادا فرما لیتے تھے ۔(کشف الباری)

تشریح "چو نکہ صلوات علی الخمرۃ کی کراہت حضرت عمر بن عبدالعزیز سے منقول ہے اس لئے اس پر اسی باب سے رد  فرمارہے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ خمرۃ اس چھوٹی سی چٹائی کو کہتے ہیں جو مصلی کے لئے پوری نہ ہو تو ایسی صورت میں بعض حصہ نماز تو ارض پر ہو گا اور بعض غیر ارض پر اس کے جواز پر متنبہ فرمادیا ۔(تقریر بخاری شریف)"

شرح صحیح مسلم لابن بطال میں ہے:

"ولا خلاف بين فقهاء الأمصار فى جواز الصلاة على الخمرة إلا شىء روى عن عمر ابن عبد العزيز أنه كان لا يصلى على الخمرة، ويؤتى بتراب فيوضع على الخمرة فى موضع سجوده ويسجد عليه، وقال شعبة، عن حماد: رأيت فى بيت إبراهيم النخعى حصيرا، فقلت: أتسجد عليه؟ فقال: الأرض أحب إلى، وهذا منهما على جهة المبالغة فى الخشوع لا أنهما لم يريا السجود على الخمرة؛ لأن النبى (صلى الله عليه وسلم) قد صلى عليها، وقال سعيد بن المسيب: الصلاة على الخمرة سنة، فلا يجوز لهما مخالفة سنته عليه السلام، وإنما فعلا ذلك على الاختيار، إذ قد ثبت عنه عليه السلام، أنه كان يباشر الأرض بوجهه فى سجوده، وقد انصرف من الصلاة وعلى جبهته وأنفه أثر الماء والطين؛ فذلك كله مباح بسنته عليه السلام."

(كتاب الصلاة،باب إذا أصاب ثوب المصلي امرأته إذا سجد،٣٤/٢،ط: مكتبة الرشد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144411100467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں