بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کے ایف سی پاکستان کے تیار کردہ کھانے کھانے کا حکم


سوال

KFC PAKISTAN (کے ایف سی) کی ویب سائٹ پر یہ لکھا ہے:"ہم فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم حلال معیاری چکن اور دیگر حلال اجزا قابل بھروسہ مقامی سپلائرز سے حاصل کرتے ہیں" ، لہذاکیا "کے ایف سی پاکستان" کی تیار کردہ اشیاء کھانا صحیح ہے؟

جواب

"کے ایف سی پاکستان"کی ویب سائٹ پر ان کی تیار کردہ کھانے کی اشیاء سے متعلق جو لکھا ہے کہ "ہم فخرکے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم حلال معیاری چکن اور دیگر حلال اجزا قابل بھروسہ مقامی سپلائرز سے حاصل کرتے ہیں۔"کی بنیاد پر ان کی تیار کردہ اشیاء حلال ہیں،کیوں کہ "کے ایف سی" اگر چہ خود غیرمسلم فوڈ کمپنی ہے، لیکن   وہ ازخوداپنی تیار کردہ اشیاء کے حلال ہونے کا دعوی نہیں کررہی ہے،بلکہ اس کے بیان کے مطابق  اس کی جانب سے پاکستان میں تیارکردہ اشیاء کے لیےحلال اجزائے ترکیب مقامی افراد سےحاصل کیے جارہے ہیں،اور پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے،اس لیے مقامی افرادسے حاصل کردہ اشیاءکا عمومی حکم حلال کا ہی ہوگا، الایہ  کہ اگر اس کی حرمت کا یقینی طور پر علم ہوجائے تو اس صورت میں وہ چیز حلال نہ ہوگی، مثلاً حلال چیزیں خریدنے کے بعد پکاتے وقت یا اس سے پہلے یا بعد  کوئی حرام یا ناپاک چیز ملائی جاتی ہو اور یہ معتبر ثبوت کے ذریعہ معلوم ہوتو پھر وہ چیز حلال نہیں ہوگی۔ اس لیے احتیاط بہتر ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"ولا يقبل قول الكافر في الديانات، وإنما يقبل قوله في المعاملات خاصة للضرورة؛ ولأن خبره صحيح لصدوره عن عقل ودين يعتقد فيه حرمة الكذب، والحاجة ماسة إلى قبول قوله لكثرة وقوع المعاملات، ولا يقبل في الديانات لعدم الحاجة إلا إذا كان قبوله في المعاملات يتضمن قبوله في الديانات فحينئذ تدخل الديانات في ضمن المعاملات فيقبل قوله فيها ضرورة، وكم من شيء يصح ضمنا، وإن لم يصح قصدا ألا ترى أن بيع الشرب وحده لا يجوز، وتبعا للأرض يجوز فكذا هنا يدخل حتى إذا كان له خادم أو أجير مجوسي فأرسله ليشتري له لحما فقال اشتريته من يهودي أو نصراني أو مسلم وسعه أكله، وإن قال اشتريته من مجوسي لا يسعه أكله؛ لأنه لما قبل في حق الشراء منه لزمه قبوله في حق الحل والحرمة ضرورة لما ذكرنا، وإن كان لا يقبل قوله فيه قصدا بأن قال هذا حلال، وهذا حرام.

"كل معاملة لا تخلو عن ديانة فلو لم يقبل فيها في ضمن المعاملات لأدى إلى الحرج، وكان ينسد باب المعاملات بالكلية، وهو مفتوح فيقبل قول المميز فيها ضرورة بخلاف ‌الديانات ‌المقصودة؛ لأنها لا يكثر وقوعها كالمعاملات."

(كتاب الكراهية،ج:6، ص:12، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يقبل ‌قول ‌الكافر ‌في ‌الديانات إلا إذا كان قبول قول الكافر في المعاملات يتضمن قوله في الديانات، فحينئذ تدخل الديانات في ضمن المعاملات فيقبل قوله فيها ضرورة هكذا في التبيين."

(كتاب الكراهية، الباب الأول، الفصل الأول في الإخبار عن أمر ديني، ج:5، ص:308، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں