میری کار،گاڑی کی مالیت تقریباً 220،0000 لاکھ ہے، اگر کیش میں بیچتا ہوں،تو تقریباً 30یا40 ہزار کم یا زیادہ میں فروخت ہوگی، میرے ایک جاننے والے مجھے 6مہینے کےمدت میں 260،0000 لاکھ دینا چاہتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک مدت متعین کر کے زیادہ رقم لینااور دینا سود تو نہیں ہے؟جب کہ بیچنےوالےاورخریدنےوالےدونوں کومارکیٹ کا ریٹ معلوم ہے۔
واضح رہے کہ عقد بیع کرتےوقت قیمت کامعلوم اورمتعین ہوناضروری ہے،قیمت مجہول ہونےکی صورت میں بیع صحیح نہیں ہوتی،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا220،0000لاکھ کی گاڑی کونقد کےبجائےاپنےجاننےوالےکو 260،0000لاکھ کےعوض چھ مہینےکی ادھارپرزیادہ قیمت کےساتھ فروخت کرناشرعاًدرست ہے،بشرطیکہ سائل اورخریدارکےدرمیان مجلس عقدمیں ایک ہی قیمت (یعنی 260،0000) طے ہوگئی ہو۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول....فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."
(كتاب البيوع، فصل في شروط الصحه، ج:5، ص:158، ط: دار الكتب العلمية)
دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع.
يعني أن التأجيل إذا كان بالأيام أو الشهور أو السنين أو بطريق آخر فهو صحيح ما دام الأجل معلوما (بحر) وعلى هذا إذا باع إنسان من آخر متاعا وهو صحيح وسلمه إليه ثم توفي فليس لورثته أن يأخذوا الثمن من المشتري قبل حلول الأجل؛ لأن الأجل الذي هو حق المدين لا يبطل بوفاة الدائن علي أفندي وهذه المادة فرع للمادة."
(الكتاب الأول في البيوع، الفصل الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالبيع بالنسيئة والتأجيل (المادة ٢٤٦) كون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط، ج:1، ص:228، ط:دارالكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501102508
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن