بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر خلع لے سکتی ہے؟


سوال

 ہماری شادی کو دو سال ہوئےہیں، ہماراایک  بچہ ہے،میری بیوی ملک سے باہررہتی ہے،کیامیری بیوی مجھےاطلاع دیےبغیر (یعنی میری اجازت کےبغیر)خلع لےسکتی ہے؟ ابھی ہم الگ رہتےہیں،کیاالگ رہنےسےطلاق واقع ہوجاتی ہے؟

جواب

واضح رہےکہ خلع   بھی مالی معاملات  کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات کے شرعی طورپر   معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع کےشرعی طورپر  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی  ضروری ہوتی  ہے،  لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، نیز طلاق دینا بھی شوہر کا حق ہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگربیوی  سائل( شوہر) کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  عدالت سے خلع نامہ لےلے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری  بھی جاری کردے تو شرعاً ایسی خلع معتبر نہیں ہوتی،اورنکاح اس سے ختم نہیں ہوتا۔

باقی جب تک شوہر،بیوی کوخود طلاق نہ دےدے اس وقت تک  صرف میاں بیوی کےالگ رہنے کی وجہ سےکوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

 مسند امام أحمدبن حنبل میں ہے :

"حدثنا إسماعيل، حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، عمن حدثه، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌أيما ‌امرأة ‌سألت ‌زوجها ‌الطلاق ‌من ‌غير بأس ‌فحرام ‌عليها ‌رائحة ‌الجنة."

(کتاب الطلاق،37/ 62 ،ط: الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے :

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:440، ط: سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے :

"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، ص:173، ط: دارالمعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے : 

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق ، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة(3/ 145)ط : دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں