میں حافظ قرآن ہوں، اور حنفی دیوبندی ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ: زیادہ تنخواہ ملنے کی لالچ میں ، کیا میں اہل حدیث کی مسجد میں امامت کر سکتا ہوں؟
صورت مسئولہ میں غیرمسلک جماعت کی مسجد میں امامت کی وجہ سے اگراپنے مسلک کی مخالفت کرنا لازم نہ آتاہو،تو اس صورت میں امامت کی اجازت ہوگی، تاہم اپنے مسلک کو چھپانا خطرہ وفساد سے خالی نہیں، البتہ اپنے آپ کو غیرمقلد ظاہر کر کے اپنے مسلک کی مخالفت کرنا جائزنہیں ہوگا۔
سنن ترمذی ميں ہے:
" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه. قالوا: وكيف يذل نفسه؟ قال: يتعرض من البلاء لما لا يطيق."
(ابواب الفتن، باب، رقم حديث: 2254، ج: 2، ص:573،ط: إنعامية)
معارف القرآن کاندھلوی میں ہے:
"کسی دنیوی لحاظ کے خاطر اپنے دین کو چھوڑ دینا اور اس میں سستی کرنا، اس کا نام مداہنت ہے ، ۔۔۔ مداہنت قبیح اور مذموم ہے، کماقال تعالٰی:﴿وَدُّوا۟ لَوۡ تُدۡهِنُ فَیُدۡهِنُونَ﴾ . خلاصہ یہ کہ دین میں سستی اور نرمی کانام مداہنت ہے ۔"
(پارہ:1,سورة البقره ،آیت :82،ج:1 ،ص: 224،ط: مکتبہ معارف)
تفسير عزيزی ميں ہے :
"﴿وَدُّوا۟ لَوۡ تُدۡهِنُ فَیُدۡهِنُونَ ﴾" وہ چاہتے ہیں کہ کاش کے تو اپنے آئین اور وضع سے سستی کرے ۔۔۔ غرض اس کلام سے یہ ہے، کہ حقانی آدمی کو مخالفوں کی بات ہر گز سننا نہ چاہیے، اور ان کی رضامندی کو منظور نہ رکھنا چاہیے، اس واسطے کہ آخر کو یہ بات دین کی سستی کا سبب پڑتی ہے، لیکن مدارات یعنی تواضع اور خلق نیک، ہر شخص سے بہتر ہے ،مگر اس قدر کہ اپنی وضع اور آئین میں فتور نہ پڑے ،اور دین میں سستی نہ ہونے پائے، اور یہ كام نہایت مشکل ہے، اور مدار ات اور مداہنت میں فرق کرنا بہت دشوار ہے، اکثر لوگ اس جگہ پر لغزش کھا جاتے ہیں، بعضے خلق چاپلوسی اور خاطر داری میں اس طرح ڈوب گئے ہیں کہ دین کی باتوں میں صراحۃ سستی اور ڈھیل کرنے لگے ۔۔۔ اور یہ بات بہت بری ہے، حاصل کلام کا یہ ہے کہ: منکروں کے ساتھ موافقت رکھنا اگرچہ ظاہری ہو، ہدایت عامہ کلیہ میں خلل ڈالتا ہے اور اجر غیر مقطوع کے مستحق ہونے سے باز رکھتا ہے۔"
(پاره:29،سورة القلم، ج:3، ص:67، ط:سعيد)
تفسير مظہری ميں ہے :
"﴿وَدُّوا۟ لَوۡ تُدۡهِنُ فَیُدۡهِنُونَ ﴾ .". مسألة: وهذه الآية تدل على أن المداهنة في أمر الدين حرام ."
(پاره:ب29، سورة القلم، آية :8، ج: 7،ص:198،ط:دارالكتب بيروت)
فتاوى محمودیہ ميں ہے :
"سوال:ميں ديوبندی عقائد کاحامل ہوکر بریلوی عقیدہ والوں کی مسجد میں نماز پڑھاتاہوں ،یہ جائز ہے یانہیں ؟ــ"
"جواب: اگر ان کی خاطر غلط کام نہ کرے توجائز ہے،لیکن یہ یاد رہے کہ اپنے کو چھپانا خطرناک ہے ."
(باب الامامۃ،الفصل العاشر غیر حنفی کی اقتداکابیان،ج: 6،ص:383،ط: ادارۃ الفاروق )
مرقاة المفاتیح میں ہے :
"قوله تعالى: {واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة} [الأنفال: 25] أي: بل تصيبكم عامة بسبب مداهنتكم، والفرق بين المداهنة المنهية والمداراة المأمورة أن المداهنة في الشريعة أن يرى منكرا ويقدر على دفعه، ولم يدفعه حفظا لجانب مرتكبه، أو جانب غيره لخوف أو طمع، أو لإستحياء منه أو قلة مبالاة في الدين."
(كتاب الآداب، باب الأمربالمعروف،رقم حديث: 5138، ج:9، ص:328، ط: رشيديه)
شرح الحموی میں ہے :
"درء المفاسد أولى من جلب المصالح."
(الفن الأول ،القاعدة الرابعة، ج:1،ص:223،ط:رشيديه )
الدرالمختار ميں ہے:
" وكل ماأدى إلى مالايجوز لايجوز."
(كتاب الحضر وزالإباحة ط، فصل في اللبس، ج: 6، ص: 360، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101868
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن