بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مشورے کا عمل نبوت اور وحی کا بدل ہے؟


سوال

تبلیغی بیانات اور مجالس میں یہ سننے کو ملا ہے، کہ مشورےکا عمل نبوت اور وحی کا بدل ہے، اس کی حقیقت ادلہ اربعہ کی روشنی میں بیان فرمائیں۔

جواب

واضح رہےکہ شریعت مطہرہ میں مشورہ کی بڑی اہمیت ہے،اور ہر کام کےشروع کرنےسےپہلےباشعوراورنیک افرادسےمشورہ کرنا بلاشبہ فائدہ مند اورنفع بخش ثابت ہوتا ہے،قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں  ہرکام شروع کرنےسےپہلےمشورہ کرنےکا حکم دیا گیا ہے،اورمشورہ میں کوئی بات طے ہوجائے تو اس میں خیروبرکت ہوتی ہے،لہٰذاسوال میں سائل نےجوبات تبلیغی بیانات اورمجالس میں سنی ہےکہ مشورےکاعمل نبوت اوروحی کابدل ہے،اس کےمتعلق تفصیل کچھ یوں ہے،کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی حیات میں وحی آتی تھی لیکن اس کےباوجود مشورہ کا حکم وہاں بھی تھا۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَشَاوِرْهُم فِی الْاَمْر) (سورہ آل عمران، آیت : 159)ترجمہ : اور ان سے خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے۔(ازبیان القرآن)

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بزبان خودارشاد فرمایا ہےکہ: جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہیں ہوا اور جس نے استخارہ کیا وہ ناکام نہیں ہوا۔

لہٰذاآپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اگرمشورہ میں کچھ کمی کوتاہی رہ جاتی تو اس کی اصلاح وحی کےذریعےسے ہوجاتی تھی، اب چوں کہ وحی کا سلسلہ بندہوچکا ہے،تودین کی اشاعت ا ورحفاظت  کے لیے کسی ایک شخص کی رائے پر اعتمادبھی نہیں کیاجاسکتا، اس لیے مشورہ کرنا بہتر ہے، اور وحی قطعی چیز ہے جس میں شبہ اور غلطی کا احتمال نہیں ہے،مشورہ میں غلطی کا احتمال رہتا ہے اس لیے مشورہ کو وحی اورنبوت کا بدل نہیں کہا جائے گا ،اور نہ ہی یہ کہا جائے گا جو برکات وحی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے وہی مسجد کے مشورہ میں ہوتی ہے، البتہ مشورہ میں جتنے زیادہ باشعور اور نیک افراد ہوں تو اس میں اتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوتی ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

 "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ.(سورة: آل عمران:159)."

"ترجمہ:بعداس کےخداہی کی رحمت کےسبب آپ ان کےساتھ نرم رہے،اوراگرآپ تندخوسخت طبعیت ہوتےتویہ آپ کےپاس سےسب منتشرہوجاتے،سوآپ ان کومعاف کردیجئےاورآپ ان کےلیےاستغفارکردیجئے،اوران سےخاص خاص باتوں میں مشورہ لیتےرہاکیجئے،پھرجب آپ رائےپختہ کرلیں سوخداتعالیٰ پراعتماد کیجئے،بیشک اللہ تعالیٰ ایسےاعتماد کرنےوالوں سےمحبت فرماتےہیں۔"

قرآن مجید میں ہے:

وَالَّـذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِـمْ وَاَقَامُوا الصَّلَاةَۖ وَاَمْرُهُـمْ شُوْرٰى بَيْنَـهُمْۖ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ يُنْفِقُوْنَ.(سورة: الشورى:38)

"ترجمہ:اورجن لوگوں نےاپنےرب کاحکم مانااوروہ نمازکےپابندہیں،اوران کاہرکام آپس کےمشورہ سےہوتاہےاورہم نےجو کچھ دیاہےاس میں خرچ کرتےہیں۔"

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وروى الطبراني في الأوسط، عن أنس مرفوعا: (ما خاب من استخار، ولا ندم ‌من ‌استشار، ولا عال من اقتصد)."

(كتاب الرقاق، باب التوكل والصبر، ج:8، ص:3326، ط: دار الفكر، بيروت)

کنزالعمال میں ہے:

‌"من ‌أراد ‌أمرا ‌فشاور ‌فيه امرءا مسلما وفقه الله لأرشد أموره."

(‌‌الكتاب الثالث في الأخلاق، ‌‌الفصل الثاني: في تعديد الأخلاق المحمودة، ج:3، ص:409، ط: مؤسسة الرسالة)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: ‌ما ‌رأيت ‌أحدا ‌أكثر ‌مشورة لأصحابه من رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(باب ما جاء في المشورة، ج:3، ص:330، ط:  دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں