بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا امام صاحب سے یہ قول ’’عامۃ ما أحدثكم بہ خطأ‘‘ ثابت ہے؟


سوال

 یہاں غیر مقلدین امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو غلط ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے اقوال پیش کرتے ہیں،جن کا جواب ہم علماء کرام کے کتب و بیانات سے اخذ کرکے دیتے ہیں، اب وہ ایک اور حوالہ  امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو غلط ثابت کرنے کے لیے دے رہے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اپنے بارے میں فتویٰ ہے کہ"تم لوگوں کو بتائی ہوئی میری اکثر باتیں غلط ہوتی ہیں" ، کیا یہ قول  امام صاحب رحمہ اللہ سے ثابت ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کس تناظر میں ہے؟ 

جواب

مذکورہ قول علامہ کوثری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "تانیب الخطیب" میں  خطیب بغدادی کی کتاب "تاریخ بغداد"  کے حوالے سے  نقل کیا ہے اور اس کے دو جواب بھی دیے ہیں:

1۔پہلاجواب یہ ہے کہ اس قول کی دوسندیں ہیں اور دونوں سندیں ضعیف ہیں، پہلی سند میں عبداللہ بن محمد البغوی ہےاور اُن کے بارے میں ابن عدی نے فرمایا ہے کہ:"اُن کے ضعف پر تمام مشائخ بغداد متفق تھے، ان کی اپنی قوم نے ہی ان کو کذب (جھوٹ) کی طرف منسوب کیاہےاور یہ  ثقہ راویوں کے بارے میں کلام کرتے تھے۔"،دوسری سند میں دعلج اور احمد بن علی الابار ہیں، اور اِن دونوں کو  ابو الحسن العطار اور علی ابن الحسن الرصافی جیسے لوگ غیر ثابت شدہ باتیں پہنچایا کرتے تھے، لہٰذا اِن دونوں سندوں کے ساتھ یہ قول ضعیف ہے۔

2۔دوسرا جواب یہ  ہے کہ اس قول کے نقل کرنے میں  ابن المقرئ سے نقل کرنے والے راویوں سے غلطی ہوئی ہے، وہ ٹھیک طرح سے ابن المقرئ کے الفاظ کو ضبط نہیں کر پائے، اصل میں امام صاحب کسی راوی پر جرح کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ:"عامة ما حدثكم به خطأ"کہ یہ راوی جو تم سے احادیث بیان کرتاہے، اُن میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں، ابن المقرئ سے نقل کرنے والے راوی حضرات  سے الفاظ نقل کرنے میں غلطی ہوگئی، اُنہوں اس کو "ہمزہ" کے ساتھ"عامة ما أحدثكم به خطأ " نقل کردیا۔

نیز اس قول کے بے بنیاد ہونے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ  کوئی بھی عاقل شخص اپنے بارے میں ایسی بات نہیں کرسکتا کہ میں تم سے اکثر غلط  احادیث بیان کرتا ہوں، جب کہ امام صاحب کے عقل وفہم  اور تقوٰی و طہارت کی گواہی تو اُن کے مخالفین بھی دیتے ہیں، پھر وہ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ دونوں سندوں میں امام صاحب سے براہِ راست اس قول کےنقل کرنے  والے ابوعبد الرحمٰن بن یزید المقرئ ہیں، جو کہ امام صاحب کے کثیر الملازمۃ شاگردوں میں سے ہیں، اُنہوں نے امام صاحب سے کثرت کے ساتھ روایات  نقل کی ہیں، اگراُنہوں نے امام صاحب سے  ایسی بات سنی  ہوتی کہ میری تم سے بیان کردہ اکثر احادیث غلط ہوتی ہیں،تو پھر وہ ہر گز امام صاحب سے اس  کثرت سے روایات نقل نہ کرتے اور نہ ہی پھر وہ امام صاحب کے کثیر الملازمۃ شاگردوں میں سےہوتے۔

تاریخ بغداد للخطیب البغدادی میں ہے:

"45- أخبرني الحسن بن أبي طالب، حدثنا عبيد الله بن محمد بن حبابة، حدثنا عبد الله بن محمد البغوي ، حدثنا ابن المقرئ، حدثنا أبي قال: سمعت أبا حنيفة يقول: ما رأيت أفضل من عطاء، وعامة ما أحدثكم به خطأ.

46- أخبرني ابن الفضل، أخبرنا دعلج بن أحمد، أخبرنا أحمد بن علي الأبار، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابن المقرئ قال: سمعت أبا حنيفة يقول: عامة ما أحدثكم به خطأ."

(حرف النون، نعمان ابن ثابت، ذكر ماقاله العلماء في ذم رأيه....، 413/3، دار الکتب العلمية)

تانیب الخطیب  میں ہے:                           

" وقال : حدثنا عبد الله بن محمد البغوي ، حدثنا ابن المقرئ، حدثنا أبي قال: سمعت أبا حنيفة يقول: ما رأيت أفضل من عطاء، وعامة ما أحدثكم به خطأ.

أقول : ساقه بسندين، ففي الأول البغوي، وعنه يقول  ابن عدي: مشائخ بغداد كانوا مجمعين على تضعيفه، وفي الثاني دعلج وكان يدخل عليه أمثال أبي الحسن العطار، و علي بن الحسين الرصافي، أشياء.

وفيه أيضاالأبار صنيع دعلج ، ولعل أحدهم ممن بعد ابن المقرئ زاد الهمزة في (حدثكم)،  وكان كلامه في صددِ تغليط أحد الرواة، ولم يضبط الراوي عن ابن المقرئ لفظه، وإلا فلايتصور أن يلازم أبو عبد الرحمن بن يزيد المقرئ أبا حنيفة، و يسمع منه بعد أن سمع منه مثل هذا الكلام، مع أنه من المكثرين عنه جدا.

على أن هذا الكلام، لايصدر من عاقل أصلا، وعقل أبي حنيفةبشهادة خصومه كان يوزن مع عقول أهل طبقته فيزنها. ولعل الواضع لم يدبر وضع الأسطورة، ليفضحه الله على ملأ الأشهاد."

(تأنيب الخطيب للعلامة الكوثري، ص: 235)

الکامل فی ضعفاء الرجال میں ہے:

"عبد الله بن محمد بن عبد العزيز أبو القاسم البغويبن بنت أحمد بن منيع، وهوا بن أخي علي بن عبد العزيز.......ووافيت العراق سنة سبع وتسعين ومئتين والناس أهل العلم والمشايخ معهم مجتمعين على ضعفه وكانوا زاهدين من حضور مجلسه وما رأيت في مجلسه قط في ذلك الوقت إلا دون العشرة غرباء..... وتكلم قومه فيه عند عبد الحميد الوراق ونسبوه إلى الكذب وقال عبد الحميد هو أنغش من أن يكذب أي يحسن الكذب وكان بذيء اللسان يتكلم في الثقات."

(حرف العين، عبد الله ابن محمد ابن عبد العزيز أبو القاسم البغوي،437/5، ط:دار الكتب العلمية)

التکمیل  فی الجرح والتعدیل میں ہے:

"وقال محمد بن سعد: سمعت ابن معين يقول: كان أبو حنيفة ثقة، لا يحدث بالحديث إلا بما يحفظ، ولا يحدث بما لا يحفظ.

وقال صالح جزرة: كان أبو حنيفة ثقة في الحديث.

وقال غيره: عن ابن معين: كان أبو حنيفة عندنا من أهل الصدق، ولم يتهم بالكذب، ولقد ضربه ابن هُبيْرة على القضاء فأبى أن يكون قاضياً.

وقال يحيى بن معين: سمعت يحيى بن سعيد القطان يقول: لا نَكذبُ الله ما سمعنا أحسن من رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثر أقواله.

قال ابن معين: وكان يحيى بن سعيد: يذهب في الفَتْوَى إلى أقوال الكوفيين ويختار قوله من أقوالهم وتبع رأيه من بين أصحابه.

وقال الخطيب البغدادي: أنا البرقاني: ثنا أبو العباس بن حمدان لفظاً: ثنا محمد بن أيوب: ثنا أحمد بن الصَّبَّاح: سمعت الشافعي قال: قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجْعلها ذهباً لقام بحجته."

(حرف النون، النعمان بن ثابت، 376/1، ط: مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں