بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بینک ملازم کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا شرعاً درست ہے؟


سوال

 میرے لیے ایک لڑکی کا رشتہ آیا ہے جس کےوالد نے شروع سے ہی بینک کی نوکری کی ہے، اورمعلوم ہونے کےباوجود کہ بینک کی نوکری حرام ہے چھوڑی نہیں، یوں اس لڑکی کی پرورش(جس کا رشتہ میرے لیے آیا ہے) حرام آمدنی سے ہوئی ہے،تو کیا اس لڑکی سے نکاح کرنا مناسب یا جائز ہے؟ جب کہ میرے سامنے سے ایک حدیث گزری ہے جو پیش کر رہا ہوں کہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے فرمایا:(يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم)اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے(يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم) پھر  آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،پریشان حال اور غبار آلود ہے،آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے( میرے رب! اے میرے رب!) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے،اس کا پینا حرام ہے،اس کاپہنناحرام کا ہےاور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے، پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی، برائے مہربانی اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی سے نکاح کرناجائز ہے،شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،البتہ شادی کے وقت اورشادی کے بعد لڑکی کےوالداگرتحائف وہدایا وغیرہ بینک کی آمدنی سے لےکردیتاہےتواس سے اجتناب کرناضروی ہے؛اس لیے ان سے کہاجائے کہ حلال رقم سے تمام چیزوں کاانتظام کریں،اوراگر حلال رقم نہیں ہے توکسی سے حلال رقم قرض لے کر تمام کام انجام دیں یہاں تک کہ کھانا،پینااوردعوت کاانتظام بھی حلال رقم سے کریں،باقی لڑکی مجبورہے اس کے سارے اخراجات کی ذمہ داری باپ پر ہے ،لہٰذا اگرلڑکی کی پرورش حرام رقم سے کی ہے تواس کاگناہ باپ پرہوگابیٹی پر نہیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال:(لعن ‌رسول ‌الله صلى الله علي وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه)، وقال: (هم سواء)."

(كتاب المساقات، باب لعن آكل الرباوموكله، ج:3، ص:1219، الرقم:1598، ط: داراحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"فعلى هذا فالفاسق لا يكون كفؤا لصالحة بنت صالح بل يكون كفؤا لفاسقة بنت فاسق، وكذا لفاسقة بنت صالح كما نقله في اليعقوبية، فليس لأبيها حق الاعتراض لأن ما يلحقه من العار ببنته أكثر من العار بصهره. وأما إذا كانت صالحة بنت فاسق فزوجت نفسها من فاسق فليس لأبيها حق الإعتراض لأنه مثله وهي قد رضيت به."

(كتاب النكاح، باب الكفاءة، ج:3، ص:89، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌سئل ‌الفقيه أبو جعفر عمن اكتسب مالا من أمر السلطان وجمع المال من أخذ الغرامات المحرمة وغير ذلك هل يحل لأحد عرف ذلك أن يأكل من طعامه قال أحب إلي في دينه أن لا يأكل منه ويسعه أكله حكما إن كان ذلك الطعام لم يقع في يد المطعم غصبا أو رشوة كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس عشر في الكسب، ج:5، ص:350، ط: رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں