بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی مرد کا اپنی بیوی کی حیات میں اس کی ماموں زاد بہن کو نکاح میں جمع کرنے کا حکم


سوال

میرا سوال فتویٰ نمبر144405100043 کے متعلق ہے ،جِس میں آپ نے جوابِ دیاہے کہ بیوی کی حیات میں بیوی کے ماموں  کی بیٹی سے نکاح جائز ہے ،میرا آپ سے سوال پوچھنے کا مقصد حیات کے بارے میں جاننا نہیں تھا، جس کی وجہ سے میرے سوال کا جواب مُجھے واضح سمجھ میں نہیں آیا،لیکن اب میں واضح کر دیتا ہوں کی میری بیوی حیات  ہے اور میرے نکاح میں  ابھی بھی ہے، اصل پوچھنے کا مقصد یہ تھا کی ایک ہی وقت میں بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے بیوی کے مامو ں کی بیٹی یعنی کی بیوی کی ماموں  زاد بہن دونوں کو ایک ساتھ اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے یا نہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیوی اور اس کی  ماموں زاد بہن کو نکاح میں جمع کرناجائز ہے،مذکورہ  فتوی نمبر:144405100043،میں بیوی کی حیات کا مقصد بھی یہی ہے کہ بیوی زندہ ہو اور نکاح میں ہو۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"الجمع بين المرأة وابنة عمها أو ابنة عمتها أو ‌ابنة ‌خالها جائز."

(كتاب النكاح ،‌‌الفصل الثالث عشر في بيان أسباب التحريم ،ج:3،ص:74،ط:دارالكتب العلمية بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"واختلف في الجمع بين ذواتي رحم محرم سوى هذين الجمعين بين امرأتين لو كانت إحداهما رجلا لا يجوز له نكاح الأخرى من الجانبين جميعا أيتهما كانت غير عين كالجمع بين امرأة وعمتها، والجمع بين امرأة وخالتها ونحو ذلك."

(كتاب النكاح ،فصل أنواع الجمع بين ذوات الأرحام منه جمع في النكاح،ج:2،ص:262،ط:دارالكتب العلمية بيروت لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں