بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی دوسرے شخص کو ملازمت دلواکر کمیشن لینے کا حکم


سوال

 زید کسی کو بھی مناسب کمپنی میں ملازمت پر لگاتا ہے اور اس کو کمپنی پیسہ دیتی ہے ،تو کیا اس شخص سے اس کی پہلی تنخواہ ملنے کے بعد اس میں سے 20 فیصد لے سکتا ہے یا نہیں ؟اور یہ اس کے لیے لینا شرعا درست ہوگا یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید  کا کمپنی سےاگر یہ معاہدہ ہواہے کہ وہ  کمپنی کوملازم مہیا کرے گا،اور کمپنی ملازم مہیا کرنے پر کچھ مخصوص پیسے(اجرت) دے گی، تو کمپنی کوملازم مہیاکرنے کی صورت میں زیدکاکمپنی سےمذکورہ رقم( اجرت) لیناجائزہے،لیکن مذکوہ شخص سے اس کی پہلی  تنخواہ میں سے20فیصد لیناجائزنہیں،اس لیے کہ زید جس عمل کی اجرت کمپنی سےلے رہاہے،اس عمل کی اجرت ملازم سے نہیں لے گا،بلکہ کمپنی ہی اس اجرت کی ذمہ دارہے،یہ مسئلہ اس صورت میں ہے ،جب زید اس کام کے لیے باقاعدہ کمپنی کی طرف سے مقررہو،اگرزید اس کام کے لیے باقاعدہ مقررنہ ہو،بلکہ کمپنی نے کہاہوکہ ’’اگربندہ لائے توکمیشن دیں گے‘‘، اورکمپنی میں لگنے والے شخص نے بھی زید کوکام دلانے کے لیےمقررکیاہو،توزید دونوں طرف سے کمیشن لے سکتاہے،البتہ  دونوں طرف سے کمیشن لیا جائے یا ایک طرف سے، بہرکیف  کمیشن کو پہلے سے طے کرناضروری ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية."

(كتاب الإجارة،الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطهاج : 4 ص : 409 ط : رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة،‌‌باب الإجارة الفاسدة ج : 6 ص : 63 ط : سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولايجوز أخذ المال ليفعل الواجب."

(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: 5، صفحہ: 362، ط: سعید)

و فیہ ایضا:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية  قوله (فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له."

( کتاب البیوع ج: 4 ص: 560 ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں