بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی مجبوری کی بناء پرمیراث تقسیم کرنے میں تاخیر کرنا


سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا،مرحوم کی میراث میں ایک مکان تھا،پھروہ مکان ہم نےوالدہ کے نام کروادیا،والدہ کا بھی انتقال ہوا،اب ہم صرف چاربھائی اور چار بہنیں حیات ہیں،اس میں ایک بہن کے علاوہ سب شادی شدہ ہیں،سب بہن ،بھائی والدصاحب کامکان بیچنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ایک بہن جو غیرشادی ہے وہ تیار نہیں ہے،اگر غیرشادی شدہ بہن مکان کی فروختگی کے کاغذات پر سائن نہ کرے،توکیاوہ گناہ گار ہوگی یانہیں؟جب کہ بہن کی کمائی کا کوئی دوسراذریعہ بھی نہیں ہے،اور نہ رہائش کے لیےکوئی دوسرامکان مہیاہے،ازراہ کرم اس مسئلے کا شریعت کی روشنی میں حل بتائیں۔

وضاحت:ہماری بہن کی عمر50سال سے اوپر ہے،جس کی بناء پر رشتہ کرنے میں کافی مشکلات ہیں،اور ہماراگھر تین فلورز پر مشتمل ہے،گراؤنڈ فلور،فاسٹ فلور،سیکنڈ فلور۔

جواب

واضح رہے کہ میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے،بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا درست نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم والدکا مکان تقسیم کرنے کےلیے اگر تمام ورثاء تیارہیں، صرف  ایک وارث (مرحوم کی غیر شادی شدہ بیٹی ) کی طرف سے رکاوٹ  ہے ،تو ایسی صورت میں   اس رکاوٹ کو دور کرنے کا آسان طریقہ یہ ہےکہ سائل کے بھائیوں میں سے کوئی بھی اپنی بہن کی رہائش کے لیےاپنے گھر میں کوئی ترتیب بنائے،اور سائل کی بہن کے حصے میں جو رقم آجائے اس سے اپنی بہن کی آمدنی  کا کوئی ذریعہ بنائے ،یااس رقم سے ایک مناسب گھر لے کرکرایہ پر دےدیں،اس کے بعد مرحوم والد صاحب کا مکان تقسیم کرلیاجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب أيضا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقا (ولو) كانت الأنثى (بالغة) صحيحة (أو) كان الذكر (بالغا) لكن (عاجزا) عن الكسب (بنحو زمانة)  كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيرا) ....... (بقدر الإرث) - {وعلى الوارث مثل ذلك} [البقرة: 233]- (و) لذا (يجبر عليه) . ثم فرع على اعتبار الإرث بقوله (فنفقة من) أي فقير (له أخوات متفرقات) مو سرات (عليهن أخماسا) ولو إخوة متفرقين فسدسها على الأخ لأم والباقي على الشقيق (كإرثه) وكذا لو كان معهن أو معهم ابن معسر؛ لأنه يجعل كالميت ليصيروا ورثة."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب النفقة، مطلب في نفقة الأصول، ج:3، ص:627، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم ‌بطلب ‌كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول."

( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

 "دار بين رجلين نصيب أحدهما أكثر فطلب صاحب الكثير القسمة وأبى الآخر فإن القاضي يقسم عند الكل وإن طلب صاحب القليل القسمة وأبى صاحب الكثير فكذلك وهو اختيار الإمام الشيخ المعروف بخواهر زاده وعليه الفتوى."

 (كتاب القسمة، الباب الثالث في بيان ما يقسم و مالا يقسم و ما يجوز من ذلك و ما لا يجوز، ج: 5، ص: 207، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں