بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی خاتون کو عزیز و اقارب کی طرف سے علاج کےلیے بطورِ تعاون رقم دینے کے بعد شوہر کا اسے قرض سمجھ کر واپس کرنے کاحکم


سوال

ایک خاتون جب بیمار ہوئی تو ان کے بھانجے نے علاج معالجہ کروایا اور دیگر کچھ عزیز و اقارب نے اپنی طرف سےخیر خواہی اور تعاون کے طور پر علاج کے اخراجات کے لیے اس خاتون کے بھانجے  کو کچھ رقم  دی، اسی بیماری میں یہ خاتون فوت ہوگئی، اب ان کے شوہر کا کہنا ہے کہ مرحومہ کی بیماری کے زمانے میں جن رشتہ داروں نے علاج معالجے کےلیے تعاون کیا تھا، وہ بطور قرض تھا، اب شوہر یہ رقم ان لوگوں کو واپس  کرنا چاہتے ہیں اور بیوی کے بھانجے سے یہ مطالبہ کررہے ہیں، کہ وہ ان کو اخراجات کی وہ لسٹ دیں، جس میں عزیزوں سے لی گئی رقم درج ہے، جو تعاون کرنے والےعزیزوں نے بطورِ تعاون وہمدردی  دی تھی، جب کہ معاونین یہی کہہ رہے ہیں، کہ ہمیں یہ رقم نہیں چاہیے، اس صورت حال میں مرحومہ کے بھانجے نے شوہر سے کہا کہ اگر آپ نے پیسے دینے ہی ہیں، تو ہمیں دے دیں، پھر ہماری مرضی ہم جہاں  مناسب سمجھے خرچ کریں۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ:

1:کیا مرحومہ کے شوہر کایہ مطالبہ شرعاً درست ہے؟

2:بھانجا شوہر کی طرف سے دی ہوئی رقم دوسرے کسی کار خیر میں لگا سکتا ہے؟

3:کیا دوسری جگہ لگانے کےلیے معاونین کی اجازت ضروری ہے؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے عزیز و اقارب نے مرحومہ کے علاج معالجہ کے لیے بطورِ تعاون و ہمدردری جو رقم دی تھی، تو یہ ان کے طرف سے مرحومہ پر  تبرع واحسان تھا، جس کا صلہ ان کو آخرت میں ملے گا، شوہر کا یہ کہنا کہ یہ عزیز و اقارب کی طرف سے قرض تھا، میں اس کو واپس کروں گا، درست نہیں اور نہ اس کے ذمہ واپسی لازم ہے، جب کہ عزیز واقارب خود اقرار کررہے ہیں کہ یہ بطورِ تعاون تھا،یہ حکم اس صورت میں ہے کہ مذکورہ رقم غیر زکوۃ کی ہو ،یا زکوۃ کی ہو اور وہ مستحق ِ زکوۃ ہو ۔

2۔3:تاہم اگر شوہر عزیز و اقارب کی طرف سے دی ہوئی رقم ہر صورت میں قرض سمجھ کر واپس کرنا چاہتاہے، تو اس صورت میں جس نے جتنی رقم دی تھی، اس کو  اپنی ذاتی رقم سےاتنی رقم دے سکتاہے، مرحومہ کے ترکہ  ميں سے وه رقم  دینا جائز نہیں ہوگا،  پھر ان مالكان  کی مرضی کہ وہ مرحومہ کے بھانجے کو  کار خیر میں خرچ  کرنےكےليے وه رقم دیں   یا خود اپنی ضرورت میں استعمال کریں ۔

موسوعہ القواعد الفقہیۃ  میں ہے:     

"قاعدة:{لا رُجُوْعَ فِیْمَا تَبَرَّعَ عَنِ الْغَیْرِ}فمن دفع مالاً عن غيره بغير إذنه أو أوامره، فلا حقّ له في الرّجوع على مَن دفع عنه؛ لأنّه متبرّع.:من أمثلة هذه القاعدة ومسائلها:إذا دفع وأدّى دين غيره بغير إذنه، ثمّ طالبه بما دفع، فلا حقّ له، وليس للمدفوع عنه أداء ما دفع, لأنّ الدّفع بغير إذن تبرّع، والمتبرّع لا يرجع".

(القاعدۃ الثالثۃ الثلاثون،ج:8، ص:868، ط:مؤسسة الرسالة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق،وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة وكذلك حكم الحق الثابت في المحل عرف هذا فنقول للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء".

(كتاب الدعوى، فصل فی بیان حکم الملک، ج:6، ص:264، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں